Sandoor لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Sandoor لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 5 جون، 2025

خصی بکرا، آنڈو بکرا




ایک روز گاؤں کے اسکول میں شاگرد نے استاد سے بڑا سنجیدہ سوال پوچھ لیا:
"استاد جی، خصی بکرا اور آنڈو بکرے میں کیا فرق ہوتا ہے؟"

استاد نے مونچھوں کو تاؤ دیا، گلا کھنکارا اور ایسا جواب دیا کہ پورا گاؤں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا:
"وہی فرق ہوتا ہے جو آپریشن سندور سے پہلے اور بعد والے نریندرا مودی میں ہے!"

یہ بات سنتے ہی شاگرد کی آنکھیں پھیل گئیں، جیسے گویا پہلا فلسفیانہ نکتہ سمجھ آیا ہو۔
استاد نے بات آگے بڑھائی:
"بیٹا، جیسے گاؤں میں بکرے کو خصی کرنے والے ماہر قصائی ہوتے ہیں، ویسے ہی دنیا کے بڑے ملکوں کے وزیراعظموں کو خصی کرنے والے عالمی سیاست کے قصائی یعنی سپر پاورز ہوتے ہیں۔"

اب ذرا مودی بابا کی سن لیجیے۔ کبھی آنکھوں میں آگ، ہاتھ میں ڈنڈا، اور زبان پر "دیش بچاؤ" کا نعرہ لیے دندناتے پھرتے تھے۔ پھر اچانک امریکہ جیسے طاقتور ملک کے صدر کی نگاہِ خاص پڑی۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ اصل آپریشن نیتن یاہو نے کروایا۔ مودی کو ہتھیار دے کر بہلایا پھسلایا، پھر کہا،
"بس اب ذرا لکڑی کے پھٹے پر لیٹ جاؤ، درد تھوڑا ہوگا، پر سٹریٹیجک پارٹنرشپ بڑھے گی۔"

بس، مودی جھٹ سرینڈر مودی بن گئے اور لکڑی کے پھٹے پر آرام سے لیٹ گئے۔
خصی ہونے کی خبر جب بھارت پہنچی تو عوام بولی:
"ہمیں تو پتا ہی نہ تھا کہ ہمارا شیربالا اتنا نرم و نازک نکلے گا۔"

اب مودی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ عوام خود کر رہی ہے۔ کبھی سوشل میڈیا پر meme، کبھی بی جے پی کے جلسے میں سوالات، اور کبھی ووٹ کا چھرا!

اب آئیے دوسرے بکرے کی طرف، جس کا نام ہے زیلنسکی۔
جی ہاں، وہی یوکرین والا اداکار، جو اچانک صدر بن گیا۔ اس کا پھٹہ تیار کرنے میں یورپی ممالک نے بڑا خلوص دکھایا۔ اسے بھی یہی کہا گیا:
"بس تھوڑا سا لیٹ جاؤ، روس کو روکنا ہے۔"

بیچارہ زیلنسکی بھی ہتھیاروں کے لالچ میں لیٹ گیا۔ مگر خصی کرنے والے جو ماہر نکلے، وہ روسی تھے!
اب حال یہ ہے کہ زیلنسکی منظر سے ہی غائب ہو چکا ہے، اور روسی آنکھیں یورپ کو دکھا رہے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں:
"ایک بکرا تو چلا گیا، اب تم لوگ بھی سنبھل جاؤ!"

آخر میں استاد جی نے نتیجہ اخذ کیا:
"بیٹا، بکرے آنڈو ہوں یا خصی، قصائی کی چھری سب پر چلتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ بکرے سینہ تان کر قربانی دیتے ہیں، اور کچھ پُھس ہو کر بھی ڈھول بجواتے ہیں!"

واہ رے سیاست ، تیرا کمال!

بدھ، 28 مئی، 2025

نریندرمودئ سے سرینڈرمودی تک کا سفر



مئی 2025 میں جب بھارت نے پہلگام حملے کے بعد "آپریشن سندور" کا اعلان کیا، تو نریندر مودی کا انداز، زبان اور لب و لہجہ مین روایتی "چوکیدار" مودی تھا جو پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کرتا، گولی کا جواب گولی سے دینے کے نعرے لگواتا اور اپنے ووٹر کو ایک جارحانہ طاقت کا خواب دکھاتا تھا۔

آپریشن سندور بھی اسی بیانیے کا تسلسل تھا۔  بھارتی میڈیا پر جنگی ترانے، ٹاک شوز میں فتح کے نعرے، اور مودی کے چہرے پر روایتی اکڑ نمایاں تھی۔

مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ بیانیے صرف بولنے سے نہیں، نبھانے سے بنتے ہیں — اور یہی وہ مقام تھا جہاں "نریندر" کا بیانیہ "سریندر" میں بدلنے لگا۔

پاکستان کی طرف سے روایتی شور شرابے کے بجائے ایک غیر متوقع خاموشی دیکھنے کو ملی — لیکن یہ خاموشی طوفان سے کم نہ تھی۔ ایک طرف سفارتی محاذ پر پاکستان نے بھرپور موجودگی دکھائی، اقوام متحدہ، چین، ترکی، ایران اور دیگر ممالک کو صورتحال سے آگاہ کیا؛ دوسری طرف عسکری سطح پر بھارت کو سمجھا دیا گیا کہ "حقیقی طاقت وہ نہیں جو کیمرے دکھائیں، بلکہ وہ ہے جو دشمن کی زبان میں جواب دے۔"

بھارت کو اندرون خانہ دفاعی پوزیشن لینی پڑی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مودی حکومت کو اندازہ ہوا کہ بیانیہ اب نہیں چلے گا۔

مودی حکومت نے آہستہ آہستہ اپنی زبان بدلنی شروع کی۔ گولی، بدلہ، جنگ، دشمن، اور فتح جیسے الفاظ کی جگہ ترقی، خودانحصاری، آتم نربھر بھارت، نوجوانوں کی تربیت، اور میک ان انڈیا جیسے نرم مگر بھاری الفاظ نے لے لی۔

وزیر اعظم مودی نے ایک تقریر میں کہا:

"آپریشن سندور اب صرف فوجی کارروائی نہیں، ایک قومی مہم ہے۔ یہ ہماری اندرونی ترقی، قومی یکجہتی اور خودانحصاری کی علامت ہے۔"
یہ وہی مودی تھے جنہوں نے دو ہفتے قبل کہا تھا:

"ہم گھر میں گھس کر ماریں گے، اور دشمن کو نیست و نابود کر دیں گے۔"

 

نریندر مودی اب اپنے بیانیے میں دفاعی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے تحمل، تیاری اور بروقت ردعمل نے انہیں مجبور کیا کہ وہ عسکری رنگ کو دھندلا کر ترقیاتی رنگ چڑھائیں۔ ایک ایسا لیڈر جس کی پوری سیاست پاکستان مخالف جذبات پر کھڑی تھی، آج "ہر شہری آپریشن سندور کا سپاہی ہے" جیسے نعرے لگا رہا ہے۔

یعنی بندوقوں کی جگہ بازو، ٹینکوں کی جگہ تربیتی ادارے، اور "سرجیکل اسٹرائیک" کی جگہ "اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام"۔

یہی وہ لمحہ تھا جہاں نریندر، سریندر بنے۔

مودی کو یقین تھا کہ وہ جارحانہ فوجی کارروائی سے پاکستان کو دباؤ میں لے آئیں گے، جیسا کہ وہ اپنے ووٹروں کو باور کراتے تھے۔ مگر اس بار، ان کی غلط فہمی دور ہو گئی — اور وہ بھی اسی زبان میں جو وہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان نے مودی کو پیغام دے دیا کہ نہ صرف وہ تیار ہے، بلکہ اب دنیا کو بھی اپنا مؤقف منوانا جانتا ہے۔ اور یہی وہ سبق ہے جو نریندر کو شاید سیاست کے میدان میں پہلی بار اتنے خاموش انداز میں پڑھایا گیا ہے۔

آج آپریشن سندور کا ذکر "ترقی" اور "یکجہتی" کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔ مگر یہ روشنی اصل میں بیانیے کے اس دھوئیں سے نکلی ہے جو میزائل کی زبان میں بولا گیا اور خاموشی سے دفن ہوا۔

مودی کے لیے اب یہ بیانیہ نہ صرف شکست کی علامت ہے، بلکہ سیاسی چالاکی کی آخری پناہ بھی۔ مگر تاریخ یہ  ضرور لکھے گی کہ مئی 2025 میں مودی نے جو جنگ 
بیانیے کےٹھندے کمرے میں بیٹھ کر شروع کی تھی اسے پاکستان نے جنگ کے گرم محاذ پر دفن کر دیا ہے