culture لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
culture لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 9 جون، 2025

حقیقی آزادی



کہتے ہیں انسان نے آگ جلانا سیکھا، شکار کرنا سیکھا، زبان بنائی، شہر آباد کیے —
مگر وہ خوف سے کبھی آزاد نہ ہو سکا۔
وہ غار کے دور میں بھی ڈرتا تھا — اندھیری راتوں، درندوں اور گرجدار بادلوں سے۔
اور آج… وہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی ڈرتا ہے — افلاس سے، عذاب سے، بیماری سے، دوزخ سے، موت سے۔
یہ خوف — کبھی مذہب کے لبادے میں آتا ہے، کبھی دنیاوی محرومیوں کے روپ میں، اور کبھی انسان کے اپنے نفس سے۔
تاریخ میں مارٹن لوتھر کے زمانے کا واقعہ درج ہے کہ
ایک کسان نے انڈ لجنس
indulgence
خریدنے کے بعد وہ سوال کر لیا جو خوف کی بنیاد ہلا گیا:
"اگر میں قتل کر دوں، تو کیا بچ جاؤں گا؟"
"ہاں!" پادری نے اطمینان سے جواب دیا۔
اور کسان نے اُسے قتل کر دیا — کیونکہ معافی نامہ وہ پہلے ہی خرید چکا تھا۔
یہاں ہر محلے میں ایک پیر، ہر چینل پر ایک مبلغ، ہر فیس بک پیج پر ایک مجازی شیخ موجود ہے۔
وہی خوف بیچا جا رہا ہے — صرف انداز بدلا ہے۔
چندہ نہ دیا؟ خدائی عذاب!
کسی فقیر کو انکار کیا؟ رزق بند ہو جائے گا!
فلاں بزرگ کے مزار پر حاضری نہ دی؟ سانحہ ہو جائے گا!
سوال کر لیا؟ ایمان خطرے میں ہے!
اس کے عالوہ
غربت کا خوف، بے روزگاری کا خوف، کاروبار کے تباہ ہونے کا خوف، فصل نہ اُگنے کا خوف، بچوں کے بچھڑنے کا خوف…
ان سب خوفوں کے بیچ انسان جیتا نہیں، بس زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔
لیکن ان سب خوفوں سے بڑا ایک ہی ہے: موت کا خوف۔
موت — جو کسی وقت، کسی شکل میں آ سکتی ہے۔
اور اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے: موت کے بعد کا انجام۔
کیا ہم نجات پائیں گے؟
کیا بخشش ممکن ہے؟
یا ہم ہمیشہ کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے؟
یہ سوالات صرف مذہب سے وابستہ نہیں، یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔
خوف… کیا ہمیشہ برا ہے؟
نہیں۔
خوف کبھی کبھی تحفظ دیتا ہے۔
دوزخ کا خوف ہی ہے جو ہمیں جھوٹ بولنے سے روکتا ہے۔
غربت کا اندیشہ ہی ہمیں محنت پر اکساتا ہے۔
اپنوں کے بچھڑنے کا ڈر ہمیں ان کی قدر سکھاتا ہے۔
لیکن…
جب خوف انسان کی آزادی، رائے، ضمیر اور سوال کو کچلنے لگے —
تو وہ صرف ایک شکنجہ ہوتا ہے، ایک اندھی تقلید کا بوجھ، جس کے نیچے انسان سانس لینا بھول جاتا ہے۔
نجات کا واحد دروازہ: سچائی اور شعور
قرآن کہتا ہے:
"فَلا تَخافُوهُم وَخافونِ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ"
(ان سے نہ ڈرو، مجھ سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو)

جمعرات، 5 جون، 2025

خصی بکرا، آنڈو بکرا




ایک روز گاؤں کے اسکول میں شاگرد نے استاد سے بڑا سنجیدہ سوال پوچھ لیا:
"استاد جی، خصی بکرا اور آنڈو بکرے میں کیا فرق ہوتا ہے؟"

استاد نے مونچھوں کو تاؤ دیا، گلا کھنکارا اور ایسا جواب دیا کہ پورا گاؤں ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا:
"وہی فرق ہوتا ہے جو آپریشن سندور سے پہلے اور بعد والے نریندرا مودی میں ہے!"

یہ بات سنتے ہی شاگرد کی آنکھیں پھیل گئیں، جیسے گویا پہلا فلسفیانہ نکتہ سمجھ آیا ہو۔
استاد نے بات آگے بڑھائی:
"بیٹا، جیسے گاؤں میں بکرے کو خصی کرنے والے ماہر قصائی ہوتے ہیں، ویسے ہی دنیا کے بڑے ملکوں کے وزیراعظموں کو خصی کرنے والے عالمی سیاست کے قصائی یعنی سپر پاورز ہوتے ہیں۔"

اب ذرا مودی بابا کی سن لیجیے۔ کبھی آنکھوں میں آگ، ہاتھ میں ڈنڈا، اور زبان پر "دیش بچاؤ" کا نعرہ لیے دندناتے پھرتے تھے۔ پھر اچانک امریکہ جیسے طاقتور ملک کے صدر کی نگاہِ خاص پڑی۔ یار لوگ کہتے ہیں کہ اصل آپریشن نیتن یاہو نے کروایا۔ مودی کو ہتھیار دے کر بہلایا پھسلایا، پھر کہا،
"بس اب ذرا لکڑی کے پھٹے پر لیٹ جاؤ، درد تھوڑا ہوگا، پر سٹریٹیجک پارٹنرشپ بڑھے گی۔"

بس، مودی جھٹ سرینڈر مودی بن گئے اور لکڑی کے پھٹے پر آرام سے لیٹ گئے۔
خصی ہونے کی خبر جب بھارت پہنچی تو عوام بولی:
"ہمیں تو پتا ہی نہ تھا کہ ہمارا شیربالا اتنا نرم و نازک نکلے گا۔"

اب مودی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ عوام خود کر رہی ہے۔ کبھی سوشل میڈیا پر meme، کبھی بی جے پی کے جلسے میں سوالات، اور کبھی ووٹ کا چھرا!

اب آئیے دوسرے بکرے کی طرف، جس کا نام ہے زیلنسکی۔
جی ہاں، وہی یوکرین والا اداکار، جو اچانک صدر بن گیا۔ اس کا پھٹہ تیار کرنے میں یورپی ممالک نے بڑا خلوص دکھایا۔ اسے بھی یہی کہا گیا:
"بس تھوڑا سا لیٹ جاؤ، روس کو روکنا ہے۔"

بیچارہ زیلنسکی بھی ہتھیاروں کے لالچ میں لیٹ گیا۔ مگر خصی کرنے والے جو ماہر نکلے، وہ روسی تھے!
اب حال یہ ہے کہ زیلنسکی منظر سے ہی غائب ہو چکا ہے، اور روسی آنکھیں یورپ کو دکھا رہے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں:
"ایک بکرا تو چلا گیا، اب تم لوگ بھی سنبھل جاؤ!"

آخر میں استاد جی نے نتیجہ اخذ کیا:
"بیٹا، بکرے آنڈو ہوں یا خصی، قصائی کی چھری سب پر چلتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ بکرے سینہ تان کر قربانی دیتے ہیں، اور کچھ پُھس ہو کر بھی ڈھول بجواتے ہیں!"

واہ رے سیاست ، تیرا کمال!

اتوار، 8 اکتوبر، 2017

باپ

                                                                                   
میں نے جمعہ بازار سے سستے داموں خریدی کتاب بغل میں دبائی اور مولوی رشید کو دینے ان کے مسجد سے متصل حجرے میں گیا۔ انھیں کتاب کا تحفہ خوش کر دیتا تھامگر اس دن وہ رنجیدہ تھے۔ کتاب کو انھوں نے کونے میں رکھ دیا۔ بتانے لگے ْ ملک صاحب فوت ہو گئے ہیں ْ ۔۔۔ ملک صاحب اپنے وقت میں دبدبے والے سرکاری افسر تھے، مسجد کے ساتھ تیسرا بنگلہ ان کا تھا۔ دونوں بیٹے بھی سرکاری افسر تھے ْ مغرب کے بعد ہسپتال کی ایمبولنس میں میت آئی ، میں بھی موجود تھا ، لوگوں نے میت اتاری ْ خاموش ہو گئے سانس لیا ْ بڑے بیٹے نے کہا میت گیراج میں رکھ دو ، اندر بچے ڈریں گےْ