جمعرات، 4 جنوری، 2018

تہذیوں کی جنگ

عالمی سیاست میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ تیزی بھی دکھائی دے رہی ہے ۔عالمی قوتیں اس قدر جلدی میں ہیں ، ایک ملک کے امن کو دیاسلائی دکھائی جاتی ہے اور حالات پر تیل چھڑک کر دوسرے ملک کا رخ کر لیا جاتا ہے ۔ فلسطین میں قتل و غارت پر ماتم کناں انسانیت کی افسردگی اور بے چارگی سے شہہ پا کر ٹرمپ نامی انسانیت دشمن خونی پاکستان پر چڑھ دوڑا ہے ، اور کہا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان تو چند دنوں کی معاشی مار ہے اور پاکستان کی سیکورٹی معطلی کے اعلان کے موقع پر امریکی ترجمان کے لہجے کی رعونت یہ رہی کہْ جب تکْ پاکستان امریکہ کے اطمینان کے مطابق اپنے ہاں سے دہشت گردی کے اڈے ختم نہیں کرتااس وقت تک امداد اور سیکورٹی معطل رہے گی اور جب پاکستان یہ کر لے گا تو پھر امداد کی بحالی کا سوچا جا سکتا ہے ۔ 

امریکی صدر نے سعودیہ کے دورے کے دوران جہاز میں ْ اپنے میڈیا ْ کے لوگوں سے بات چیت کی جو بعد میں ایک امریکی اخبار میں اور وہاں سے شرق الاوسط کے ایک جریدے میں نقل ہوئی ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور امریکہ کو اپنی یہ طاقت استعمال کر کے دنیا پر اپنے رعب کو بحال کرنا ہو گا اور یہ محتاج ممالک
 Client States
 پر دھاک سے ہی ممکن ہے ۔القدس کے مسٗٗلے پر دھاک جما لینے کے بعد ہی اکلوتی سپر پاور کا رخ پاکستان کی طرف ہوا ہے ۔اور ابھی پاکستان رد عمل کی تیاری میں ہی ہے تو سوچ لیا گیا ہے کہ پاکستان نے تو خود کشی کا راستہ اختیار کر ہی لیا ہے لہذا خطے میں پاکستان کے متبادل کے طور پر امریکہ کی نظر ایران پر ہے۔

مریکہ کا خیال ہے کہ ایران خطے میں تنہا ہے ، اس کے ہمسائیوں میں بھارت اسرائیل کی محبت میں کلی طور پر امریکہ کے ساتھ ہے۔شام اور عراق برباد ہو چکے ہیں۔سعودیہ اور ایران کے حالات ْ تومار یا میں ماروںْ تک کشیدہ ہیں ۔ پاکستان کو اپنی فکر لاحق ہو چکی ہے ۔ واحد سہارا ایران کی اندرونی یکجہتی ہے مگر اس کے خلاف امریکہ کھل کر سامنے آ چکا ہے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں حکومت مخالف ایرانی عناصر سر گرم ہو چکے ہیں ۔ جمعرات کے دن ایرانی حکومت کے مخالفین کی جانب سے جو تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ہیں ۔ان میں یہ تصویر بھی شامل ہے۔
القدس میں سفارت خانے کی منتقلی کے بعد لگتا ہے امریکہ نے یقین کر لیا ہے کہ اس کی دھاک کو تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ اسی لیے پاکستان کو کسی قابل ہی نہیں سمجھا جا رہا اور ایران میں مظاہرین کی اعانت شروع کر دی گئی ہے ۔ امریکی عوام پر ایسا بدبخت ٹولہ مسلط ہو گیا ہے جس کو خود امریکہ میں مست ہاتھی کہا جا رہا ہے ۔ حالانکہ امریکہ دنیا کا با خبر ترین ملک ہے ۔حکمران ٹولہ اپنے تھنک ٹنکس کی سنتا ہے نہ جرنیلوں کی ۔قدرت کو معلوم نہیں کس کا امتحان مقصود ہے ۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ ہر امتحان کے بعد نتیجہ کامیابی یا ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ امریکہ نے خطے میں بہت وسیع امتحان گاہ چنی ہے اور اس کو یقین ہے کہ امتحان میں کامیابی چوہدری کے صاحبزادے کو ہی ہونی ہے ۔اور اس یقین دہانی میں بھارت کا بہت بڑا کردار ہے ، اور یہ طے ہے کہ بھارت نے پاکستان اور ایران کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینا ہے ۔ مگر رولا یہ ہے کہ اس خطے میں بسنے والے مسلمان( جو امریکہ کے نزدیک کمی کمین ہیں ) سترہ سالوں سے اسی امتحان کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور یقین یہ ہے کہ یہ ْ کمی کمین ْ دہاندلی کے باوجود پاس ہوں یا نہ ہوں البتہ فیل نہیں ہوں گے ۔مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے یہ جذباتی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستانیوں کے بارے میں امریکہ کی سوچ رعونت پر مبنی ہے تو ایران کے بارے اس کا یہ یقین کہ شیعہ ایران ،ایران کے اندر ،شام اور عراق میں شیعہ سنی لڑاہیوں کے باعث سنیوں کو اپنا دشمن بنا چکا ہے ۔ 

علاقے میں جاری تصادم مسلکی ہیں یا ان کا سبب معیشت ہے اس کا فیصلہ بھی اب امتحان کے بعد ہی ہو گا ۔ امریکہ جو کشیدگی دین کی بنیاد پر شروع کیے ہوئے ہے اس کشیدگی کو اسرائیل کی شہہ اور بھارت کی معاونت نے جنگ کے شعلوں میں تبدیل کرنا ہے ۔ اور اگر ( خدا نہ ، نہ ، نہ کرے ) جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تو یہ تیسری عالمی جنگ کی ابتداء ہو گی اور یہ جنگ افغانستان کی طرح سترہ سالوں تک بے نتیجہ نہیں رہے گی مگر سرعت کے ساتھ اس کا رخ سرمایہ داری 
Capitalism 
نظام کے خلاف ہو جائے گا ۔اس کے متحارب فریق ممالک نہیں بلکہ مفلوک الحال لوگ بمقابلہ سرمایہ دار ہوں گے ۔ سابقہ امریکی صدر بش نے افغانستان پر حملہ آور ہوتے وقت امریکیوں اورمغربی ممالک کو یقین دلایا تھا کہ یہ جنگ ان کے گھروں سے دور لڑی جائے گی ۔جس جنگ کی ابتداء ہی بے اصولی پر ہو چکی ہے وہ کسی امریکی صدر کے اصول کی پابند کیوں اور کیسے رہ سکے گی کہ بھوک مسلمان کی ہو یا عیسائی کی اس کا مداوا روٹی ہی ہے ۔ ایک امریکی دانشور نے لکھا تھا نا کہ یہ جنگ تہذیوں کی ہو گی ۔ اس نے سچ لکھا تھا۔ تہذیبیں مگر دو ہی ہیں ایک سرمایہ دار دوسری مفلوک الحال۔

کوئی تبصرے نہیں: