ہفتہ، 6 جنوری، 2018

چھ سوار

تحریر عبدالرحمن
پاکستانی قیادت امریکی انتظامیہ کی باجماعت دھمکیوں کے جواب میں اپنی اپنی سمجھ اور حیثیت کے مطابق غراتے ہوئے ہی سانس پھلا بیٹھی ہے۔ لیکن اصل دشمن سے غافل ہے جو ایسی صورتحال میں گھات لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
مجھے اس سے ایک واقعہ یاد آیا۔ یہ تب کی بات ہے جب فصیل بند شہروں کے دروازے شام ڈھلتے ہی بند ہو جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک شہر پانچ گھوڑ سوار دروازے بند ہونے کے بعد پنہچے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ دربان کو تعارف کراتے ایک گدھے پے بیٹھا بد حال شخص پیچھے سے پکارا! ہم چھ سواردہلی سے آئے ہیں اور زبردستی شہسواروں کی صف میں کھڑا ہو گیا۔
دنیا پہلے پانچ شاہ سواروں سے کم تنگ تھی کہ اب یہ چٹھا بھی آ ٹپکا۔ ذرا سا قد چھوٹا رہ گیا ورنہ تو اب شاہ سواری کے سارے لوازمات رکھتا ہے اور جلدی سے ہر قیمت پر گھوڑ سواروں میں ملنے کو بے چین ہے۔ لیکن اس کی حرکتوں سے لگتا ہے جیسے ڈر ہوا ہے کہ کہیں سب کچھ ہونے کے باوجود بھی گدھا سواری ہی نہ کرتا رہ جائے۔ اس لیے گھوڑ سواروں کی نقل میں اپنی اصل بھلا بیٹھا ہے۔ بدقسمتی سے یہ شوقی پاکستان کا ہمسایہ ہے اور اپنے بونے پن کا صرف اس اکیلے کو ہی قصوروار سمجھتا ہے۔
عجیب صورتحال ہے اگر وہ اپنے بونے پن کی وجہ سے گدھا سوار ہی رہا تب بھی الزام پاکستان پے اور اگر کسی نے زبردستی گھوڑے پےبٹھا کر شاہ سواروں کی صف میں کھڑا کر دیا تو پاکستان تو پہلے ہی اس کی دو لتیوں کے مزے لے رہا۔ جلد ہی باقی دنیا کو بھی لگ پتا جائے گا کہ گدھا سوار کسے کہتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں: