بدھ، 3 جنوری، 2018

قیامت کا منظر




امریکی صدر کے نئے سال کے ٹویٹ نے پاکستان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے ۔جہاں عراق کے ہر دل عزیز صدر صدام حسین 1990 میں کھڑے تھے ۔ عشروں اقتدار میں رہ کر انھوں نے عراق کے اندر بہت نام کمایا ۔ میں نے ان کے دور اقتدار میں ایک سال بغداد میں گذارااور بغداد کی گلیوں اور اقتدار کی راہداریوں کو قریب سے دیکھا ۔ اور اپنے گمان کی بنیا د پر نہیں حقائق کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ صدام عراقیوں میں مقبول ترین شخصیت تھا۔ مگر اس کا جو انجام ہو ا سو ہوا مگر صدام کا عراق بھی اجڑ گیا۔ 
کیوں؟
صدام نے احمد حسن البکر کی معیت میں عربوں کو یکجا کرنے کا بیڑا اٹھایا تھامگر اس نے ایران کے ساتھ جنگ کی ، کویت پر چڑھ دوڑا اور سعودیہ کو ایسی آنکھیں دکھائیں کہ سعودیہ نے امریکہ کے ذریعے اس 
کی آنکھوں کا نور ہی چھین لیا ۔ اور یہ تینوں صدام کے ملک کے ہمسائے تھے۔

نئے سال کے پہلے دن امریکی صدر کے ایک ٹویٹ نے پاکستان کے اندر ہلچل سی مچا دی ہے ۔ ایک بحث چل نکلی ہے امریکہ حملہ کر دے گا ، دوسری آواز آتی ہے نہیں کر سکتا ، اس کو ویتنام میں مار پڑھ چکی ہے ، بے خانمان طالبان نے اسے سولہ سالوں سے افغانستان میں بکری بنایا ہوا ہے۔ایک آواز ہے امریکہ پر چار حرف بھیجو اور چین پر انحصار کرو۔ ایک آواز ہے امریکہ ایک مست تیز بھاگتاہے اس سے بچو اور اس کا رخ کسی دوسری طرف موڑوکہ افغانوں کے پاس بچانے کے لئے کچھ بھی نہ تھا مگر ہمارے پاس تباہ 
 کرانے کے لئے بہت کچھ ہے ۔ 

مسٗلہ اسقدر گھمبیر ہے اور واقعات اس تیزی سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں کہ اب سوچ بچار سے آگے بڑھ کر فیصلے کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ ہمارا سارا زور قوم کی ذہن سازی اور تیاری میں لگا ہوا ہے مگر حکومت نے قابل تحسین کام یہ کیا ہے کہ اپنے سفارت کار دنیا کے اہم ممالک کے دارلحکومتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جو پاکستان کا کیس دینا کے سامنے رکھیں گے اور ہم پر لگائے گئے الزامات ْ جھوٹا ْ اور ْ دغا باز ْ کو غلط ثابت کریں گے ۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے مگر ہمیں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے ْ انا ْ اور ْ تباہی ْ میں سے ایک کو چننا ہو گا ۔ افغان کے بارے میں کہہ دیا گیا ہے کہ افغانستان جانے اور افغان جانیں۔ ایران کے ساتھ ہمارے مسائل ہیں مگرعام پاکستانی بھی جانتا ہے کہ وہ بد گمانیاں ہیں۔ بد گمانی بھارت کے ساتھ بھی ہے ۔ صدام کے بارے میں بھی تینوں ہمسائیوں ہی کو بد گمانی تھی ۔ 

کہا جاتا ہے کہ اصل مسٗلہ اندرونی خلفشار ، سیاسی و دینی تقسیم ہے ۔ اس تقسیم کو پاک افواج ختم کرانے کی استعداد یوں رکھتی ہے کہ سپہ سالاراس مقام پر ہیں کہ وہ متحارب گروہوں کو ایک میز کے گرد بٹھا سکتے ہیں ۔ ملک کے اندر یہ کام کر لیا جائے تو ہمارے پاس اپنے ہمسائیوں اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں بات کرنے کے لئے ہمارے پاس ایسے پاکستانی دستیاب ہو جائیں گے جو ہمار ا کیس بہتر طور پر لڑ سکتے ہیں ۔ عمران خان کی شخصیت کا سحر لندن اور واشنگٹن میں کھل کر سامنے آ سکتاہے تو نواز شریف کی بات کو دہلی میں پذیرائی حاصل ہو سکتی ہے۔دونوں سیاستدانوں کی حالات پر فکر مندی کے بیانات آ چکے ہیں ۔لہذا یہ نا ممکنات میں سے نہیں ہے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں: