اکتوبر 2023 سے جون 2025 تک مشرقِ وسطیٰ کی فضا مسلسل بارود کی بُو سے مہکتی رہی۔ ایک طرف فلسطین کے جلتے گھر، دوسری طرف ایران کے سائے میں پلتے خواب – اور ان کے بیچ اسرائیل کا وہ ہاتھ جو دور سے حملہ کرتا رہا، مگر اثرات تہران، دمشق، بیروت، اور نطنز تک محسوس کیے گئے۔
یہ دورانیہ محض حملوں کی تاریخ نہیں، بلکہ ایک منظم حکمت عملی کی عکاسی ہے – وہ حکمت عملی جو ایران کو نہ صرف جوہری میدان میں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے، بلکہ اس کی عسکری اور سائنسی قیادت کو بھی مفلوج کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔
یکم اپریل 2024 کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا۔ اسرائیلی فضائی حملے میں سات پاسدارانِ انقلاب (IRGC) افسر، ایک ایرانی مشیر، اور دو شہری مارے گئے۔ اس حملے نے ایران کی "سفارتی حدود" کو بھی غیر محفوظ کر دیا۔ یہ پیغام صرف شام کو نہیں، بلکہ تہران کو تھا۔
19 اپریل 2024 کو اسرائیل نے ایران کے اسفہان علاقے کے قریب فضائی حملہ کر کے نطنز جوہری تنصیب کے دفاعی ریڈارز اور S-300 بیٹریوں کو نشانہ بنایا۔ یہ حملہ علامتی نہیں تھا، بلکہ جوہری صلاحیتوں کی کمر توڑنے کی سنجیدہ کوشش تھی۔
ستمبر اور اکتوبر 2024 کے درمیان اسرائیل نے بیروت، بغداد، اور ایران کے اندر کئی حملے کیے۔ ان حملوں میں ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈر، بریگیڈیئر جنرل عباس نیلفروشان، اور دیگر افسران کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران کے لیے یہ صرف ہلاکتیں نہیں تھیں بلکہ نظریاتی و دفاعی بنیادوں پر ایک ضرب تھی۔
12
اور 13 جون کو اسرائیل نے جو کچھ کیا، وہ صرف ایک فوجی آپریشن نہیں تھا بلکہ ایک "خاموش اعلانِ جنگ" تھا۔ آپریشن رائزنگ لائن
(Rising Lion)
کے تحت ایران کی جوہری، میزائل، اور عسکری تنصیبات پر شدید حملے کیے گئے۔
اس حملے میں ایران کی فوجی اور سائنسی قیادت کا دل چیر کر رکھ دیا گیا:
میجر جنرل حسین سلیمی – پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ، مارے گئے۔
میجر جنرل غلام علی راشد – IRGC کمانڈر، ہلاک ہوئے۔
میجر جنرل محمد باقری – مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف، بعض ذرائع کے مطابق ہلاک، بعض کے مطابق زخمی۔
علی شمخانی – خامنہای کے سینیئر مشیر، شدید زخمی۔
فریدون عباسی داوانی – ایٹمی سائنسدان، مارے گئے۔
محمد مهدی طهرانچی – جوہری طبیعات کے پروفیسر، جان سے گئے۔
عبدالحمید منوشہر اور احمدرضا زلفغہری – شاہد بہشتی یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدان، ہلاک۔
ایرانی میڈیا کے مطابق تہران اور دیگر شہروں کے شہری علاقوں پر بھی حملے ہوئے جن میں بچوں سمیت کئی عام شہری زخمی یا ہلاک ہوئے۔ اس جنگ میں فوجی مارے جاتے ہیں، مگر اصل قیمت ہمیشہ عوام ادا کرتے ہیں۔
سوال جو باقی رہ گیا
ان حملوں کے بعد دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ امریکہ نے کسی واضح شمولیت سے انکار کیا، جبکہ
IAEA
صرف جوہری نقصانات کا جائزہ لے رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ؟ اس کا کردار ایک رسمی بیان تک محدود رہا۔
ایران نے "شدید ردعمل" کا عندیہ دیا ہے، لیکن کیا اس کی قیادت باقی بچی ہے جو جواب دے سکے؟ یا کیا اسرائیل نے اپنی حکمتِ عملی سے واقعی ایران کو جوہری طور پر پیچھے دھکیل دیا ہے؟
اسرائیل نے ایران کی پسلیوں میں گہرے زخم دیے ہیں – کچھ جسمانی، کچھ نظریاتی۔ اب ایران کا اگلا قدم مشرقِ وسطیٰ کا مستقبل طے کرے گا۔ سوال یہ نہیں کہ کون جیتا، بلکہ یہ ہے کہ کتنے مرے، اور کتنے اب بھی مرنے کو تیار ہیں۔