Humanity لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Humanity لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 6 جون، 2025

ایک سادہ سوال







فلسطین کی سرزمین مسلسل خون سے رنگین ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر بار جب اسرائیل غزہ پر حملہ کرتا ہے، ایک طاقتور ریاست اس کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے — امریکہ۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں سوال صرف اسرائیل اور فلسطین تک محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ پوری عالمی سیاست، طاقت، انصاف اور اقوام متحدہ کے کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات صرف سفارتی نہیں، بلکہ گہرے عسکری مفادات پر مبنی ہیں۔ امریکہ، اسرائیل کو ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے۔ کانگریس ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2023 تک امریکہ، اسرائیل کو 150 ارب ڈالر سے زائد کی امداد دے چکا ہے، جو کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔
یہ امداد صرف ہتھیاروں یا ٹیکنالوجی کی حد تک محدود نہیں، بلکہ اس میں انٹیلی جنس، میزائل ڈیفنس سسٹمز، اور مشترکہ عسکری مشقیں بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کی "آئرن ڈوم" سسٹم کی بڑی فنڈنگ بھی امریکی بجٹ سے آتی ہے۔
جب بھی اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے، تو امریکہ سلامتی کونسل میں ویٹو کا استعمال کر کے اسے روک دیتا ہے۔ 1972 سے لے کر اب تک امریکہ نے 45 سے زائد بار اسرائیل کے حق میں ویٹو استعمال کیا ہے۔ 2023 میں جب 14 ممالک نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، تو امریکہ نے اکیلے اسے ویٹو کر کے مسترد کر دیا۔
اب 2025 میں بھی اسئ عمل کو دہرایا گیا ہے
یہ ویٹو دراصل بین الاقوامی انصاف کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ عالمی امن کی علمبردار کہلاتی ہے، اور دوسری طرف وہ طاقتور ممالک کے مفادات کی بندی بن کر رہ گئی ہے۔
مغربی میڈیا کی اکثریت اسرائیل کے بیانیے کو تقویت دیتی ہے۔ وہ حملہ آور کو مظلوم بنا کر پیش کرتی ہے اور حقیقی متاثرین کی آوازوں کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام عوام تک حقائق بہت محدود اور مسخ شدہ 
صورت میں پہنچتے ہیں۔
سیکورٹی کونسل میں ویٹو کے نام پر جو بے انصافی کی جاتی ہے ۔اس نے سیکورٹی کونسل کے وجود پر بالخصوص اور اقوام متحدہ پر بالعموم سوال اٹھا دیے ہیں ۔ سیکورٹی کونسل کے منافقانہ کردار نے عملی طور پر دنیا بھر کی عقل اجتماعی اور امن کی کوششوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے
 اس صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے
کیا ہم ہمیشہ ویٹو پاور کے سامنے لاشیں گنتے رہیں گے؟
یہ کالم کسی مخصوص نظریے کی تائید نہیں کرتا، بلکہ
ایک  ساہ سدوال اٹھاتا ہے
جب موجودہ عالمی نظام مسلسل ناکام ہو رہا ہو، تو کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم کسی متبادل کی تلاش شروع کریں؟
اگر دنیا کی طاقتور اقوام واقعی انسانی حقوق پر یقین رکھتی ہیں، تو انہیں سب کے لیے ایک جیسے اصول اپنانے ہوں گے۔ اور اگر ایسا ممکن نہیں، تو پھر دنیا کو یہ مان لینا چاہیے کہ انصاف کا نظام صرف طاقت کی چھتری کے نیچے زندہ ہے۔

قربانی کا بنیادی فلسفہ




آج عرب دنیا میں عیدالاضحی ہے۔ مسلمان دنیا بھر میں حضرت ابراہیمؑ کی سنت ادا کر رہے ہیں، جانور قربان کیے جا رہے ہیں، ایسے میں جب "عید مبارک" کہنے کے لیے لب کھلتے ہیں، تو دل پر ایک بوجھ سا اتر آتا ہے۔ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، اور ذہن بار بار ایک ہی سمت دوڑتا ہے… غزہ!

وہ غزہ، جہاں آج بھی خون بہہ رہا ہے۔ جہاں نہ عید ہے، نہ خوشی، نہ مسکراہٹ۔ جہاں بچے قربانی کے جانور نہیں دیکھ رہے بلکہ بھوک اور پیاس اور دوائیوں کے نہ ہونے سے خود قربان ہو رہے  ہیں۔ جہاں ماؤں کے آنچل خون سے تر ہیں، اور باپ لاشیں ڈھونے پر مجبور ہیں۔

اسرائیل کئی ماہ سے غزہ میں آگ اور بارود برسا رہا ہے۔ اور دنیا، خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ جنگ صرف اسرائیل کی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے وہ طاقت کھڑی ہے جو دنیا کی بڑی طاقت کہلاتی ہے — امریکہ۔ وہی امریکہ جو مسلسل اسرائیل کو مالی، عسکری اور سفارتی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔

دنیا کے متعدد ممالک نے اس جنگ پر احتجاج کیا، جنگ بندی کا مطالبہ کیا، مگر جب یہ معاملہ اقوام متحدہ کی میز پر پہنچا تو ایک ویٹو نے پوری دنیا کی آواز کو دفن کر دیا۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ یہ کیسا عالمی نظام ہے، جہاں ایک ملک کی مرضی پوری انسانیت کی رائے پر غالب آ جاتی ہے؟

کیا دنیا واقعی اتنی بے حس ہو چکی ہے کہ اسے بچوں کی لاشیں بھی ہلا نہیں سکتیں؟ کیا عورتوں کی چیخیں، اور معصوموں کی آہیں بھی عالمی ضمیر کو نہیں جگا سکتیں؟

غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک علاقے کا المیہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تذلیل ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی ہم مہذب دنیا میں زندہ ہیں، یا پھر اب بھی طاقت کا قانون ہی سب کچھ ہے؟

المیہ یہ ہے کہ جو قومیں کبھی ظلم کا شکار رہی ہیں، آج وہ خود ظلم کی علامت بن چکی ہیں۔ جو اپنے مظالم کی تاریخ سے سبق سیکھ سکتی تھیں، وہی آج بے گناہوں پر آگ برسا رہی ہیں۔

ادھر مغربی دنیا کے شہری بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے، اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی۔ مگر مسلم دنیا؟ وہ یا تو خاموش ہے یا صرف بیانات سے آگے نہیں بڑھتی۔ عرب دنیا عید منا رہی ہے، مگر اس خوشی میں غزہ کے لہو کی تلخی ضرور گھلی ہوئی ہے۔

اور ایسے میں جب ہم حضرت ابراہیمؑ کی سنت ادا کر رہے ہیں، ہمیں ایک لمحہ رک کر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ قربانی کا اصل فلسفہ کیا ہے؟ کیا صرف جانور ذبح کرنا کافی ہے، یا ہمیں اپنی بے حسی، اپنے خوف، اپنی خاموشی کو بھی قربان کرنا ہوگا؟

حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے چلے تھے، اور خدا نے انسان کی جان بچانے کے لیے دنبہ بھیج دیا۔ اس واقعے کا اصل پیغام یہی تھا — انسان کی جان خدا کے نزدیک سب سے قیمتی ہے۔

مگر آج… انسان کو جانور سمجھا جا رہا ہے۔ اسے مٹی میں دفنایا جا رہا ہے، اور اس کے وجود کو بے وقعت کر دیا گیا ہے۔ افسوس، کہ جس انسان کے لیے آسمان سے دنبہ اتارا گیا تھا، آج وہی انسان بمباری سے مٹایا جا رہا ہے۔

یہ عید نہیں، ایک سوال ہے —
کیا ہم واقعی انسانیت کے پیغام کو سمجھ پائے ہیں؟
حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے چلے تھے، اور خدا نے انسان کی جان بچانے کے لیے دنبہ بھیج دیا۔ اس واقعے کا اصل پیغام یہی تھا — انسان کی جان خدا کے نزدیک سب سے قیمتی ہے۔



اتوار، 6 مئی، 2018

عمر کا کوڑا


ہمارے ہاں اسلامی نظام کا ذکر آٗے توحضرت عمر بن خطاب ؓ کا تذکرہ ضرور کیا جاتا ہے ۔ عمر ایسا با برکت نام ہے کہ جب بھی عمر نام کے کسی خلیفہ کی حکومت آئی امن و امان کے حوالے سے وہ دور منفرد ثابت ہوا ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں بھی امن و امان خوب رہا بلکہ معاشی درستگی کے حوالے سے ان کا دور اس لیے منفرد رہا کہ جب انھوں نے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی تو کرپشن عام تھی، مگر ہم حیران ہوتے ہیں کہ تقریبا دوسال کے عرصے میں ملک سے کرپشن ہی کا خاتمہ نہ ہوا بلکہ اس دور میں رسول اللہ کی یہ پیشن گوئی پوری ہوئی کہ معاشی محتاجگی کا خاتمہ ہوا ۔
حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عمر بن عبدالعزیزکی شخصیات انتظامی لحاظ سے بالکل مختلف تھیں ، ایک عمر کے دوران کا شعار ان کا ْ کوڑا ْ تھا تو دوسرے عمر کے دوران میں ْ سزا ْ کا فقدان نظر آتا ہے ۔حکمرانوں کے بارے میں بعض باتیں مشہور ہو جاتی ہیں جو ہوتی تو حقیقت ہیں مگر ان میں غلو ہوتا ہے ، حضرت عمر بن خطاب کا کوڑا اتنا موٹا نہیں تھا مگر تاریخ کے غلو نے اس کو ضرورت سے زیادہ نمایا ں کر کے ایک فقیر منش، خوف خدا رکھنے والے حکمران کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔
کوڑا سختی کی علامت ہے ، اسلام میں سختی کی حوصلہ شکنی پائی جاتی ہے ۔ اللہ تعالی خود انسان کو موقع دیتا ہے کہ ْ مانو یا انکار کر دو ْ خود رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سختی سے بالکل ہی مبرا ہیں ۔ بلکہ تسخیر انسان کا جو رستہ بتایا گیا وہ تسخیر قلوب ہے۔ اور عام سی بات ہے کہ دل سختی سے نہیں بلکہ ْ پیار ْ سے مسخر ہوتے ہیں۔ پیار کل بھی تسخیر قلوب تھا اور آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا ۔ 
ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی سختیاں جو بہت سارے مصاحب کو جنم دے چکی ہیں ۔ ان کو پیار اور محبت کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی ابتداء خود فرد کی ذات سے ہوتی ہوئی خاندان اور معاشرے میں پھیلتی ہے ۔ پیار اور محبت اگرْ منزل ْ مان لی جائے تو اس تک پہنچنے کی راہ کا نام ْ روا داری ْ ہے

جمعہ، 9 فروری، 2018

جواب درکار ہے

                               
اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر فیض آباد کا پل ہے جو مختلف شہروں سے آنے والے رستوں کو ملاتا ہے ۔مگر اس کی وجہ شہرت نومبرکا تحریک لبیک والوں کا دھرنا ہے جس نے اس چورستے کو پاکستان بھر میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے باہر بھی مشہور کر دیا۔ اس مشق میں شامل لوگوں سے ہم نے ملاقات کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ان کے یہاں آنے کے مقاصد کیا ہیں اور اس دھرنے سے انھیں کیا حاصل ہو گا۔ مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر نے کہا تھا ْ بچپن سے دیکھ رہا ہوں خدا امیروں کے ساتھ ہے ْ 
The Guardian 2016 may
گارڈین اخبار میں گایلز فریسر کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ انسان کامیابی کے رستوں سے پھسل جاتا ہے تو وہ مذہب کا سہارا لیتا ہے ۔ تیسری دنیا جو عام طور پر مسلمان ہیں ۔۔ کیا ترقی اور کامیابی کی شارع سے پھسلے ہوئے لوگ نہیں ہیں ؟ اگرگاڑی کو ایک سو چالیس کلو میٹر کی رفتار سے دوڑنے کے لیے ہموار موٹر وے دستیاب ہے تو چنگ چی میں چار کلومیٹر کا سفر سوار اور سواری دونوں کا پنجر ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ اور مورال آف سٹوری یہ ہے کہ گاڑی میں سفر کرنا ہے تو گلیوں سے نکلو اور کسی کالونی کے باسی بن جاو۔
کالونی کا تصور سوویٹزرلینڈ سے درآمد شدہ ہے تو کالونی کے گردا گرد اونچی دیوار سے کالونی کے اندر باسیوں کو محفوظ رکھنے کی سوچ اسرائیل کی پیداوار ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام اس سوچ کو معاونت فراہم کرتا ہے ۔پاکستان میں کالونیوں کے باسیوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے مگر اجتماعی وسائل اور خدمات کی دستیابی اور معیار کیسا ہے آپ خود اندازہ کرلیں۔ زیادہ دماغ کھپانے کی زحمت سے بچتے ہوئے صرف اصول عرض ہے کہ خدا قوی اور صاحب استعداد ہستی ہے مگر وہ دنیا میں اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے اپنی مخلوق کو ذریعہ بناتا ہے۔ اگر پاکستان سمیت دنیا بھر میں صرف سرمایہ ہی حکمرانی کا حقدار ہے تو پھر مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کا کہا ہوا سچ ہے کہ خدا امیروں کے ساتھ ہے ۔ اگرآپ سکول کے ٹیچر سے اتفاق نہ بھی کریں تو بھی آپ دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں کہ خدا غریبوں کے ساتھ ہے ۔
1940
کے بعد دنیا میں ایک ایسا خاموش انقلاب برپا ہوا ہے ، ہوا یوں کہ ایک شخص نے بیانیہ جاری کیا، چند معروف اور معاشرے کے مانوس لوگوں نے اس بیانیے کو دانشوری کے کوہ طور کا سنگ قرار دیا، مزید لوگوں نے اس پتھر کو مقدس اور مبارک مشہور کیا ، اسی گروہ کے لوگوں نے اس کی تقدیس کے بیانئے اور ترانے لکھے اور معاشرے نے اس تقدیس سے تبرک حاصل کرنا شروع کر دیا۔ اس سارے عمل میں جادو یہ ہے کہ عوام کو جاہل رکھ کر سحر زدہ رکھو۔ سرمایہ داری نظام کی یہ حکمت عملی کامیابی سے جاری و ساری تھی کہ اس نظام کی کوکھ سے گلوبل ولیج میں سوشل میڈیا نے جنم لیا۔ اور ایک دہائی بعد ہی ْ جاہل ْ بہت سے مفروضوں سے انکاری ہو گیا۔ پروپیگنڈہ کے بعد جعلی خبروں نے اس گروہ اور اس کے کاسہ لیسوں کو بے نقاب کر دیا۔
تاریخ کا مطالعہ بتا تا ہے ہر تبدیلی طاقت کی مرہون منت ہوتی ہے ، جب مدینہ المنورہ سے انسانیت کا ایک قاٖفلہ مکہ کی طرف بڑہا تھا تو اس کے پاس ایک سوچ یا ذہنیت یا عقیدے کی ْ متاع ْ تھی ۔ جوقافلے کے افراد کے قلوب میں گہری رسوخیت رکھتی تھی اور وزن میں بہت بھاری تھی۔ابو سفیان نے صاف کہہ دیا تھا یہ بھاری پتھر اٹھانا مکہ والوں کے بس میں نہیں ہے۔
مرور زمانہ میں یہ متاع لٹتی گئی ، ڈاکووں نے پلاننگ بیسویں صدی کی ابتداء میں ہی شروع کر دی تھی اور آخری ڈاکہ ترکی کے ایک شہر میں دن دیہاڑے پڑا تھا ۔انسانیت کا سر ننگا ہو گیا۔
آج کا انسان فیض آباد کے پل تک پہنچ گیا ہے ، اس کے پاس متاع میں وہی کچھ ہے جو مدینہ المنورہ سے مکہ کی طرف بڑہتے قافلے کے پاس تھی ، نام اس متاع کا ْ حب النبی ْ ہے ۔ یہ آزمودہ کارگر ہے، اگر مکہ والوں جیسے بہادر اس وقت اپنے گھروں میں دبک گئے تھے تو اب تو ایسے بہادر خود مکہ میں بھی ناپید ہو چکے۔ اس وقت اگر یہ متاع سنگ گراں تھی تو اج بھی اتنی ہی بھاری ہے ۔ مگر مسٗلہ یہ ہے کہ اس وقت کے ْ رہنماء ْ کا فخر فقر تھا مگر اج کے رہنماوں کا فقر ان کا فخر نہیں بلکہ کمزوری ہے ۔
مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کے پاس ایک کتاب تھی ۔ جس میں لکھا ہوا اس نے پڑھ کے سنایا تھا ۔ ترجمہ اس کا یوں ہے ْ اسلام غریبوں کا دین ہے ْ 
اگر یہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہْ کیا مسلمان ہونے کے لیے غریب ہونا لازمی ہے ْ تو عرض ہے کہ خود مجھے اس سوال کا جواب درکار ہے