Gaza لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Gaza لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 8 جون، 2025

دودھ سے گولی تک




کبھی گائے دودھ دیتی تھی، آج گولیاں دیتی ہے۔ کبھی گائے کا تقدس ماں کے رتبے تک محدود تھا، آج وہ مسلمانوں پر موت کا پروانہ بن چکی ہے — کہیں دادری میں اخلاق مارا جاتا ہے، کہیں فلسطین میں مسجد اقصیٰ کے گرد سرخ گائیں گردش کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے: یہ تقدس کب زہر بن گیا؟ اور کیسے ہنود و یہود نے اس "مقدس جانور" کو مسلمانوں کے خلاف اتحاد کی بنیاد بنا دیا؟
بھارت میں گائے کو "گاؤ ماتا" کہا جاتا ہے۔ رگ وید سے لے کر منوسمرتی تک ہندو مت کی کتب گائے کو دھرتی کی ماں، رزق کی دیوی، اور امن کی علامت قرار دیتی ہیں۔ مگر جب بی جے پی نے اقتدار سنبھالا تو یہی گائے امن کی جگہ نفرت کی علامت بن گئی۔ اخلاق احمد ہو، پہلو خان ہو، یا جنید — سب کے قاتل یہی گائے کے رکھوالے تھے۔
کشمیر میں تو حد ہی ہو گئی: عید پر قربانی کرنے کی کوشش پر گھروں پر چھاپے، مسجدوں کے سامنے گاؤ رکشکوں کی پہرہ داری، اور گوشت کھانے پر دہشت گردی کے الزامات۔
اب آ جائیے فلسطین کی طرف۔ وہاں بھی ایک گائے کا ذکر ہو رہا ہے — سرخ گائے، یعنی "Red Heifer"۔ یہ وہی گائے ہے جسے یہودی عقیدے میں پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کتابِ گنتی کے مطابق اس گائے کی راکھ سے طہارت حاصل کی جاتی تھی۔
مگر بات یہیں نہیں رکی۔ صہیونی گروہوں نے اعلان کیا کہ مسجد اقصیٰ کے مقام پر تیسرا ہیکل بنانے سے پہلے سرخ گائے کی قربانی ضروری ہے۔ چنانچہ امریکہ سے پانچ سرخ گائیں منگوائی گئیں، اور انہیں اسرائیل لا کر خاص مقام پر رکھا گیا۔
یہ ایک مذہبی حربہ نہیں، ایک سیاسی تلوار ہے — جس کا ہدف صرف مسجد اقصیٰ نہیں، بلکہ پورا فلسطین ہے۔
 افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل ان معاملات میں ایک دوسرے کے اتنے قریب آ چکے ہیں کہ ان کا اتحاد صرف دفاعی نہیں، نظریاتی ہو چکا ہے۔ دونوں ریاستوں کا ہدف مسلم اکثریتی علاقے — کشمیر اور فلسطین — اور دونوں نے اپنے اپنے مقدس بیانیے — گائے اور ہیکل — کو مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ہتھیار میں بدل دیا ہے۔
گزشتہ برس ایک کشمیری نوجوان نے کہا:
"بھارت کہتا ہے کہ یہ گائے مقدس ہے، ہم کہتے ہیں کہ ہماری جان بھی مقدس ہے، مگر گائے بچ جاتی ہے اور ہم مر جاتے ہیں۔"
یہی آواز فلسطین کے ایک بچے کی زبانی بھی سنی جا سکتی ہے:
"یہ سرخ گائے جب بھی شہر میں آتی ہے، ہمیں لگتا ہے ہماری مسجد کی چھت ہٹائی جائے گی۔"
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ہندو قوم پرستی اور صہیونی تحریک دونوں نے اپنے مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا؟ یا یہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے؟ اگر ہم تاریخ پڑھیں، سیاست سمجھیں، اور آج کے عالمی اتحاد و معاہدات کا تجزیہ کریں، تو ہمیں یہ واضح نظر آتا ہے کہ گائے اب صرف جانور نہیں — یہ ایک نظریاتی بارود ہے جس کے ایک سرے پر بھارت، دوسرے پر اسرائیل، اور درمیان میں صرف مسلمان۔
وقت آ چکا ہے کہ ہم "مقدس" اور "مسلح" کے فرق کو سمجھیں۔ گائے کو مذہب کا تقدس تو مل سکتا ہے، مگکسی انسان کا خون بہانے کا جواز نہیں۔۔۔ 
کشمیر میں نہ فلسطین میں

جمعہ، 6 جون، 2025

قربانی کا بنیادی فلسفہ




آج عرب دنیا میں عیدالاضحی ہے۔ مسلمان دنیا بھر میں حضرت ابراہیمؑ کی سنت ادا کر رہے ہیں، جانور قربان کیے جا رہے ہیں، ایسے میں جب "عید مبارک" کہنے کے لیے لب کھلتے ہیں، تو دل پر ایک بوجھ سا اتر آتا ہے۔ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، اور ذہن بار بار ایک ہی سمت دوڑتا ہے… غزہ!

وہ غزہ، جہاں آج بھی خون بہہ رہا ہے۔ جہاں نہ عید ہے، نہ خوشی، نہ مسکراہٹ۔ جہاں بچے قربانی کے جانور نہیں دیکھ رہے بلکہ بھوک اور پیاس اور دوائیوں کے نہ ہونے سے خود قربان ہو رہے  ہیں۔ جہاں ماؤں کے آنچل خون سے تر ہیں، اور باپ لاشیں ڈھونے پر مجبور ہیں۔

اسرائیل کئی ماہ سے غزہ میں آگ اور بارود برسا رہا ہے۔ اور دنیا، خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ جنگ صرف اسرائیل کی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے وہ طاقت کھڑی ہے جو دنیا کی بڑی طاقت کہلاتی ہے — امریکہ۔ وہی امریکہ جو مسلسل اسرائیل کو مالی، عسکری اور سفارتی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔

دنیا کے متعدد ممالک نے اس جنگ پر احتجاج کیا، جنگ بندی کا مطالبہ کیا، مگر جب یہ معاملہ اقوام متحدہ کی میز پر پہنچا تو ایک ویٹو نے پوری دنیا کی آواز کو دفن کر دیا۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ یہ کیسا عالمی نظام ہے، جہاں ایک ملک کی مرضی پوری انسانیت کی رائے پر غالب آ جاتی ہے؟

کیا دنیا واقعی اتنی بے حس ہو چکی ہے کہ اسے بچوں کی لاشیں بھی ہلا نہیں سکتیں؟ کیا عورتوں کی چیخیں، اور معصوموں کی آہیں بھی عالمی ضمیر کو نہیں جگا سکتیں؟

غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک علاقے کا المیہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تذلیل ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی ہم مہذب دنیا میں زندہ ہیں، یا پھر اب بھی طاقت کا قانون ہی سب کچھ ہے؟

المیہ یہ ہے کہ جو قومیں کبھی ظلم کا شکار رہی ہیں، آج وہ خود ظلم کی علامت بن چکی ہیں۔ جو اپنے مظالم کی تاریخ سے سبق سیکھ سکتی تھیں، وہی آج بے گناہوں پر آگ برسا رہی ہیں۔

ادھر مغربی دنیا کے شہری بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے، اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی۔ مگر مسلم دنیا؟ وہ یا تو خاموش ہے یا صرف بیانات سے آگے نہیں بڑھتی۔ عرب دنیا عید منا رہی ہے، مگر اس خوشی میں غزہ کے لہو کی تلخی ضرور گھلی ہوئی ہے۔

اور ایسے میں جب ہم حضرت ابراہیمؑ کی سنت ادا کر رہے ہیں، ہمیں ایک لمحہ رک کر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ قربانی کا اصل فلسفہ کیا ہے؟ کیا صرف جانور ذبح کرنا کافی ہے، یا ہمیں اپنی بے حسی، اپنے خوف، اپنی خاموشی کو بھی قربان کرنا ہوگا؟

حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے چلے تھے، اور خدا نے انسان کی جان بچانے کے لیے دنبہ بھیج دیا۔ اس واقعے کا اصل پیغام یہی تھا — انسان کی جان خدا کے نزدیک سب سے قیمتی ہے۔

مگر آج… انسان کو جانور سمجھا جا رہا ہے۔ اسے مٹی میں دفنایا جا رہا ہے، اور اس کے وجود کو بے وقعت کر دیا گیا ہے۔ افسوس، کہ جس انسان کے لیے آسمان سے دنبہ اتارا گیا تھا، آج وہی انسان بمباری سے مٹایا جا رہا ہے۔

یہ عید نہیں، ایک سوال ہے —
کیا ہم واقعی انسانیت کے پیغام کو سمجھ پائے ہیں؟
حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے چلے تھے، اور خدا نے انسان کی جان بچانے کے لیے دنبہ بھیج دیا۔ اس واقعے کا اصل پیغام یہی تھا — انسان کی جان خدا کے نزدیک سب سے قیمتی ہے۔