belief لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
belief لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 11 جون، 2025

نئی پہچان کی بازیافت





11
 جون 2025 کو صدرِ چین نے ایک غیرمعمولی ٹویٹ کی جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ ان کے الفاظ کچھ یوں تھے:

"اس صدی میں چین قیادت کرے گا،
اور ہم سب مل کر ایک نئی دنیا تعمیر کریں گے۔
امن جنگ پر غالب آئے گا،
خوشحالی غلامی کی جگہ لے گی۔
نسل کی بنیاد پر امتیاز ختم ہوگا،
قدرتی وسائل تمہارے ہوں گے، اور تمہارے ہی رہیں گے۔
تمہارے آبا و اجداد کے فلسفے اب پسماندہ نہیں کہلائیں گے، بلکہ تمہارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
آخرکار، یہ صدی ہم سب کی ہے۔"

یہ الفاظ محض ایک خواب نہیں، بلکہ عالمی طاقتوں کے بدلتے منظرنامے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ صدرِ چین کا پیغام نہ صرف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اعلان ہے بلکہ ایک نئے عالمی نظام کی خواہش بھی ہے — ایسا نظام جو امن، برابری اور خودمختاری پر مبنی ہو۔

چین کا عروج اب صرف ایک معاشی حقیقت نہیں رہا بلکہ وہ خود کو ایک متبادل تہذیبی ماڈل کے طور پر بھی پیش کر رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے، افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں چینی سرمایہ کاری، اور مغربی طاقتوں سے مختلف سفارتی زبان — یہ سب اشارہ دیتے ہیں کہ عالمی قیادت کا مرکز مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔

صدر چین نے کہا "امن جنگ پر غالب آئے گا"۔ یہ جملہ ایک ایسے عالمی نظام پر تنقید ہے جس نے کئی دہائیوں سے دنیا کو جنگوں، مداخلتوں اور قبضوں کا شکار بنائے رکھا۔ چین اپنی خارجہ پالیسی میں "عدم مداخلت" کو اہمیت دیتا ہے،

"خوشحالی غلامی کی جگہ لے گی" — اس جملے میں نوآبادیاتی اور معاشی استحصال کے خلاف ایک واضح پیغام ہے۔ چین ترقی پذیر ممالک کو قرضوں اور منصوبوں کی پیشکش کرتا ہے،

بعض ممالک نے چین کے ساتھ معاہدوں کے بعد قرضوں کے بوجھ کی شکایت کی ہے، لہٰذا یہ نعرہ تبھی حقیقت بن سکتا ہے جب چینی شراکت داری شفاف، منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر ہو۔

"نسل کی بنیاد پر تمہیں عزت دی جائے گی" — یہ جملہ تاریخ کے اس سیاہ باب کو چیلنج کرتا ہے جس میں رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں کی تذلیل کی گئی۔ لیکن خود چین کو بھی اپنے ہاں اقلیتوں بالخصوص ایغور مسلمانوں سے سلوک پر تنقید کا سامنا ہے۔ اگر چین واقعی عزت اور مساوات کا علمبردار بننا چاہتا ہے تو اسے اپنے اندرونی رویے میں بھی بہتری لانی ہوگی۔

"تمہارے قدرتی وسائل تمہارے ہوں گے" — یہ نوآبادیاتی ماڈل کے خلاف ایک اعلانِ بغاوت ہے۔ اگر واقعی چین ترقی پذیر دنیا کو اس کے وسائل پر خودمختاری دیتا ہے، تو یہ ایک بڑا مثبت قدم ہوگا۔

اسی طرح، "تمہارے آبا و اجداد کے فلسفے اب پسماندہ نہیں کہلائیں گے" — یہ مغربی علمی غرور پر تنقید ہے۔ دنیا کے قدیم علم، روحانی روایات اور مقامی دانش کو عزت دینے کا وقت آ چکا ہے — بشرطیکہ یہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہ ہو بلکہ عملی رویہ بن جائے۔

صدر چین کا پیغام امید، نجات اور شراکت کی بات کرتا ہے۔ مگر یہ خواب تبھی سچ ہوگا جب:
چین ترقی میں دوسروں کو برابر شریک کرے
عالمی ادارے نئی حقیقتوں کو تسلیم کریں
شفافیت، انصاف اور عزت کو عملی بنیادوں پر اپنایا جائے
اور سب سے بڑھ کر، دنیا خود بھی اپنی آزادی، خودمختاری اور ثقافت کے لیے کھڑی ہو
یہ ٹویٹ محض سفارتی بیان نہیں، بلکہ ایک نیا بیانیہ ہے — ایسا بیانیہ جو مغربی بالادستی کے بعد ایک زیادہ منصفانہ دنیا کی نوید دیتا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ بھی ہے اور موقع بھی:
کیا ہم ایک بہتر، مساوی اور پرامن دنیا کے لیے تیار ہیں؟

اگر ہم سب نے چاہا… تو واقعی یہ صدی ہم سب کی ہو سکتی ہے۔



اتوار، 8 جون، 2025

دودھ سے گولی تک




کبھی گائے دودھ دیتی تھی، آج گولیاں دیتی ہے۔ کبھی گائے کا تقدس ماں کے رتبے تک محدود تھا، آج وہ مسلمانوں پر موت کا پروانہ بن چکی ہے — کہیں دادری میں اخلاق مارا جاتا ہے، کہیں فلسطین میں مسجد اقصیٰ کے گرد سرخ گائیں گردش کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے: یہ تقدس کب زہر بن گیا؟ اور کیسے ہنود و یہود نے اس "مقدس جانور" کو مسلمانوں کے خلاف اتحاد کی بنیاد بنا دیا؟
بھارت میں گائے کو "گاؤ ماتا" کہا جاتا ہے۔ رگ وید سے لے کر منوسمرتی تک ہندو مت کی کتب گائے کو دھرتی کی ماں، رزق کی دیوی، اور امن کی علامت قرار دیتی ہیں۔ مگر جب بی جے پی نے اقتدار سنبھالا تو یہی گائے امن کی جگہ نفرت کی علامت بن گئی۔ اخلاق احمد ہو، پہلو خان ہو، یا جنید — سب کے قاتل یہی گائے کے رکھوالے تھے۔
کشمیر میں تو حد ہی ہو گئی: عید پر قربانی کرنے کی کوشش پر گھروں پر چھاپے، مسجدوں کے سامنے گاؤ رکشکوں کی پہرہ داری، اور گوشت کھانے پر دہشت گردی کے الزامات۔
اب آ جائیے فلسطین کی طرف۔ وہاں بھی ایک گائے کا ذکر ہو رہا ہے — سرخ گائے، یعنی "Red Heifer"۔ یہ وہی گائے ہے جسے یہودی عقیدے میں پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کتابِ گنتی کے مطابق اس گائے کی راکھ سے طہارت حاصل کی جاتی تھی۔
مگر بات یہیں نہیں رکی۔ صہیونی گروہوں نے اعلان کیا کہ مسجد اقصیٰ کے مقام پر تیسرا ہیکل بنانے سے پہلے سرخ گائے کی قربانی ضروری ہے۔ چنانچہ امریکہ سے پانچ سرخ گائیں منگوائی گئیں، اور انہیں اسرائیل لا کر خاص مقام پر رکھا گیا۔
یہ ایک مذہبی حربہ نہیں، ایک سیاسی تلوار ہے — جس کا ہدف صرف مسجد اقصیٰ نہیں، بلکہ پورا فلسطین ہے۔
 افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل ان معاملات میں ایک دوسرے کے اتنے قریب آ چکے ہیں کہ ان کا اتحاد صرف دفاعی نہیں، نظریاتی ہو چکا ہے۔ دونوں ریاستوں کا ہدف مسلم اکثریتی علاقے — کشمیر اور فلسطین — اور دونوں نے اپنے اپنے مقدس بیانیے — گائے اور ہیکل — کو مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ہتھیار میں بدل دیا ہے۔
گزشتہ برس ایک کشمیری نوجوان نے کہا:
"بھارت کہتا ہے کہ یہ گائے مقدس ہے، ہم کہتے ہیں کہ ہماری جان بھی مقدس ہے، مگر گائے بچ جاتی ہے اور ہم مر جاتے ہیں۔"
یہی آواز فلسطین کے ایک بچے کی زبانی بھی سنی جا سکتی ہے:
"یہ سرخ گائے جب بھی شہر میں آتی ہے، ہمیں لگتا ہے ہماری مسجد کی چھت ہٹائی جائے گی۔"
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ہندو قوم پرستی اور صہیونی تحریک دونوں نے اپنے مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا؟ یا یہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے؟ اگر ہم تاریخ پڑھیں، سیاست سمجھیں، اور آج کے عالمی اتحاد و معاہدات کا تجزیہ کریں، تو ہمیں یہ واضح نظر آتا ہے کہ گائے اب صرف جانور نہیں — یہ ایک نظریاتی بارود ہے جس کے ایک سرے پر بھارت، دوسرے پر اسرائیل، اور درمیان میں صرف مسلمان۔
وقت آ چکا ہے کہ ہم "مقدس" اور "مسلح" کے فرق کو سمجھیں۔ گائے کو مذہب کا تقدس تو مل سکتا ہے، مگکسی انسان کا خون بہانے کا جواز نہیں۔۔۔ 
کشمیر میں نہ فلسطین میں