bajwa لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
bajwa لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 4 جون، 2025

پرانی ڈھولکی نئی تھاپ


عمران خان کو اب بانی چیئرمین کے بجائے پیٹرن ان چیف پکارا جائے گا،علیمہ خٰانم          

جب قوم کے بچے بچے کو "نیوٹرل" کا مطلب سمجھ آ جائے، اور "پیرنی" گوگل پر ٹاپ ٹرینڈ بن جائے، تو سمجھ لیں کہ تبدیلی آ چکی ہے — اور تبدیلی کسی درخت پر نہیں، بنی گالہ کے ایوانوں میں پکی ہوئی ہے۔

جی ہاں، جناب عمران خان! ایک ایسا نایاب سیاسی پیکج جس میں تھوڑی سی کرکٹ، تھوڑا سا روحانیت کا تڑکا، اور باقی سب پیٹرن۔ جی ہاں، پیٹرن! وہی جس سے کپڑے تو بن سکتے ہیں، لیکن قوم کا مستقبل نہیں۔

شروع کرتے ہیں اُس مشہور زمانہ پیٹرن سے جس میں بغیر نکاح بچی بھی “نعمت” اور الزام بھی "سازش"۔ اسے کہتے ہیں "جدید خاندانی نظام"، جس پر مغرب بھی تحقیق کرنے لگا ہے۔

پھر آیا زکوٰة پیٹرن — جس میں اسپتال کے نام پر چندہ، اور بہنوں کے بزنس کے لیے بونس۔ یہ کوئی عام پیٹرن نہیں، یہ وہ ماڈل ہے جسے

Harvard Business School

نہیں سمجھ پایا ورنہ نصاب میں شامل ہو چکا ہوتا۔

جوئے والا پیٹرن تو خیر ورلڈ کپ جیتنے کے دن سے چل رہا ہے۔ فرق صرف اتنا آیا ہے کہ اب اس میں "قوم کا مقدر" بھی شامل ہے — ہارے تو عوام، جیتے تو خان صاحب۔

اور بچوں کی پرورش؟ وہ بھی

Elite-International Style

میں۔ یعنی بچے گولڈ سمتھ کے کچن سے ناشتہ کرتے ہیں، اوربا شعور قوم خالی وعدوں سے دن کا آغاز کرتے ہیں

اُدھر جمائما نے بنی گالہ چھوڑا، اِدھر خان صاحب نے اس پر قبضہ جما لیا — اسے کہتے ہیں قبضہ اورپیار کا مکافات

اب آتے ہیں جنرل باجوہ والے پیٹرن کی طرف — پہلے "قوم کا باپ باجوہ"، پھر "میر جعفر"۔ یعنی مطلب درآمد اور تعلقات بر آمد

اور جس برق رفتاری سے خان صاحب نے مانیکا فیملی سے پیرنی کو الگ کیا، اُس پر لاہور ہائی کورٹ کو خود نوٹس لینا چاہیے تھا، کہ یہ کیس طلاق نہیں، تاوان کا بنتا ہے!


کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، کیونکہ خان صاحب کا کمال یہی ہے کہ ہر اسکینڈل ایک نئی قسط بن جاتا ہے۔
رمل علی کی ڈھولکی، مراد سعید کی ٹنل، اور عائلہ ملک کی چھاؤنی — سب کہانیاں "ایکسکلوسو" بھی ہیں، اور "چٹپٹی" بھی۔




توشہ خانہ میں تحفے رکھے نہیں، سیدھے بیچے — پھر رسید دکھا کر فرمایا: "یہ سب قانونی ہے!"
اور القادر ٹرسٹ؟ ارے بھائی، یہ کوئی عام ٹرسٹ نہیں، یہ ڈرامائی ٹرسٹ ہے، جہاں
Trust
کم اور
Trick
زیادہ ہے۔



آخر میں، سانحہ 9 مئی۔ اگر تاریخ میں کبھی "بغاوت کے ناکام خاکے" کے نام سے کوئی کتاب لکھی گئی تو اس کا پہلا باب خان صاحب کے نام سے منسوب ہوگا۔

اور آج خان صاحب خود بن گئے ہیں "پیٹرن اِن چیف" — یعنی ہر پیٹرن، ہر پلاٹ، ہر پلان کے بانی و مہربان!


قوم سوچ رہی ہے کہ "خان صاحب اب کیا کریں گے؟"
ہم عرض کرتے ہیں: خان صاحب کچھ نہ کریں، بس ڈٹیں رہیں… کیونکہ ڈرامے ختم ہو جائیں تو با شعور قوم
اداس ہو جائے گی



عمران خان کو اب بانی چیئرمین کے بجائے پیٹرن ان چیف پکارا جائے گا،علیمہ خٰانم

جمعہ، 30 مارچ، 2018

عوام پوچھتے ہیں


اکیسویں صدی کے اٹھارویں سال میں ہم ججوں کی زبانی سنتے ہیں کہ کوئی مائی کا لال ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔دوسرے چینل پر ایک ایسے شخص کا انٹرویو نشر ہوتاہے جس پر عدالت کے حکم سے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے۔وہ عدالت کے بارے صاف بتاتا ہے کہ فلاں جرنیل نے عدالت پر اثر انداز ہو کر اس کے حق میں عدالت کو مجبور کیا ہے۔مشرف جھوٹاہے یا جج سچے ہیں ۔یہ سوال ہے مگر جواب میں کہا جاتا ہے کہ انصاف وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو نظر بھی آئے ۔محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈاکٹر شائد مسعود کے مقدمے میں فرمایا ہوا ہے کہ آج کے دن معافی کا موقع ہے ۔آج کے بعد یہ موقع نہیں دیا جائے گا۔شاید اس کیس میں انصاف ہوتا ہوا لوگوں کو نظر آ جائے۔مگر عوام کا انصاف پر اعتماد قائم ہے البتہ راو انور کیس میں مجرم کے سامنے ججوں کی بے بسی نے عوام کے ججوں پر اعتماد کو شدید مجروع کیا ہوا ہے۔ 
دوسری طرف سیاست دانوں کا ایک گروہ ہے ۔ جس کوججوں نے سیسلین مافیا بتایا ہوا ہے۔ اور اس گروہ کے رہنماء کی رہبری پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے شاعری کے اعلیٰ ذوق اور انگریزی ناول کے ایسے کردار کا انتخاب کیا گیا ہے ۔جس کا نام سن کرحکومتیں لرز جاتی ہیں مگر پاکستان میں عوام نے جوتا مار کر ان سیستدانوں کی بے بسی کو اجاگر کر دیا ہے ۔

ہمارے ایک مقتدر ادارے کے سربراہ کا بیان معنی خیز ہے جب انھوں نے افغانستان میں موجود طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے تناطر میں کہا کہ کسی منظم فوج کو شکست دینے کی نسبت ذہن میں راسخ ہوئے نظریات کو شکست دینا ناممکن ہوتا ہے۔مسٗلہ یہ ہے کہ ایسے بیانات صرف امریکہ ہی میں نہیں ملک کے اندر بھی پڑہے جاتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا بیان صرف ہمسائے کے لیے ہے ؟