CJP لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
CJP لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 30 مارچ، 2018

عوام پوچھتے ہیں


اکیسویں صدی کے اٹھارویں سال میں ہم ججوں کی زبانی سنتے ہیں کہ کوئی مائی کا لال ان پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔دوسرے چینل پر ایک ایسے شخص کا انٹرویو نشر ہوتاہے جس پر عدالت کے حکم سے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج ہوتا ہے۔وہ عدالت کے بارے صاف بتاتا ہے کہ فلاں جرنیل نے عدالت پر اثر انداز ہو کر اس کے حق میں عدالت کو مجبور کیا ہے۔مشرف جھوٹاہے یا جج سچے ہیں ۔یہ سوال ہے مگر جواب میں کہا جاتا ہے کہ انصاف وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو نظر بھی آئے ۔محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈاکٹر شائد مسعود کے مقدمے میں فرمایا ہوا ہے کہ آج کے دن معافی کا موقع ہے ۔آج کے بعد یہ موقع نہیں دیا جائے گا۔شاید اس کیس میں انصاف ہوتا ہوا لوگوں کو نظر آ جائے۔مگر عوام کا انصاف پر اعتماد قائم ہے البتہ راو انور کیس میں مجرم کے سامنے ججوں کی بے بسی نے عوام کے ججوں پر اعتماد کو شدید مجروع کیا ہوا ہے۔ 
دوسری طرف سیاست دانوں کا ایک گروہ ہے ۔ جس کوججوں نے سیسلین مافیا بتایا ہوا ہے۔ اور اس گروہ کے رہنماء کی رہبری پر سوالیہ نشان لگانے کے لیے شاعری کے اعلیٰ ذوق اور انگریزی ناول کے ایسے کردار کا انتخاب کیا گیا ہے ۔جس کا نام سن کرحکومتیں لرز جاتی ہیں مگر پاکستان میں عوام نے جوتا مار کر ان سیستدانوں کی بے بسی کو اجاگر کر دیا ہے ۔

ہمارے ایک مقتدر ادارے کے سربراہ کا بیان معنی خیز ہے جب انھوں نے افغانستان میں موجود طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے تناطر میں کہا کہ کسی منظم فوج کو شکست دینے کی نسبت ذہن میں راسخ ہوئے نظریات کو شکست دینا ناممکن ہوتا ہے۔مسٗلہ یہ ہے کہ ایسے بیانات صرف امریکہ ہی میں نہیں ملک کے اندر بھی پڑہے جاتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا بیان صرف ہمسائے کے لیے ہے ؟

منگل، 6 مارچ، 2018

حقائق اور میزان

 2007
تین نومبر  کو جنرل مشرف نے ایمرجنسی کا اعلان کر کے آئین کو بالکل ہی معطل کر دیا ، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کوہدائت کی کہ کہ وہ پی سی او کے تحت دوبارہ حلف لیں۔ سو کے قریب ججوں نے اس غیر قانونی حکم کو ماننے سے انکار کیاتو جنرل نے ان سب کو نظربند کرکے ڈوگر کو نیا چیف جسٹس بنا لیا۔
نظر بندی سے پہلے مگر سات جج فیصلہ دے چکے تھے کہ مشرف کا عمل غیر قانونی ہے اور اس پر عمل کرنے وا لے لاقانونیت کے مرتکب ہوں گے۔مگر طاقت جیت گئی اور قانون ہار گیا۔

2009
 میں زمینی حقائق تبدیل ہو گئے ۔ صدر آصف علی زرداری کے زیر سایہ، پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران عدالت نے مشرف کی حکومت کے دوران سات ججوں کا جاری کردہ فیصلہ نافذ کر دیا. پی سی او کے تحت بننے والی ڈوگر عدالت غیر قانونی قرار پائی۔
زمینی حقائق
پاکستانی عدلیہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عدالتوں میں قانونی تواتر کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر فیصلے کیے جاتے رہے ہیں۔ ان حقائق پر انفرادی جذبات و تعصبات اور خواہشات حاوی ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔نا دیدہ قوتوں کو بھی عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبد الرشید کی ریٹائر منٹ کے وقت چیف جسٹس بننے کی باری ابو صالح محمد اکرم  کی تھی جو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ۔ایک سوچی سمجھی رائے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے کہا کہ جسٹس سر عبدالرشید کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت ایک برطانوی قانون دان کو پاکستان کا چیف جسٹس بنانے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ پاکستان کی بیورو کریسی سمیت عدلیہ جسٹس اکرم کوبطور چیف جسٹس قبول نہیں کرے گی۔اس پر جسٹس اکرم نے کہا کہ اگر انھیں اس قابل نہیں سمجھا گیا تو بھی کسی برطانوی کی بجائے پاکستانی چیف جسٹس بنایا جائے تو ان کو قبو ل ہو گا۔گورنر جنرل نے جسٹس منیر کو چار ججوں کو بائی پاس کر کے پاکستان کا چیف جسٹس مقرر کر دیا۔

کہا جاتا ہے ایک ہاتھ دوسرے کو دھوتا ہے۔ جسٹس منیر نے 1954 میں تحلیل شدہ اسمبلی کی بحالی سے انکار کر کے احسان اتار دیا۔نظریہ ضرورت اور کامیاب انقلاب جیسی اصطلاحیں خودعدالت ہی کی اختراع ہیں۔لیکن زمین حقائق نے ایک اور کروٹ لی اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین میں ترامیم کیں۔ ایک ترمیم کے نتیجے میں جسٹس مولوی مشتاق پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نہ بن سکے۔جنرل ضیاء کے مارشل لاء کو رستہ دینے کی باری آئی تو چیف جسٹس انوارالحق کو معلوم ہوا کہ ان کی جگہ جسٹس یعقوب علی کو چیف بنایا جا رہا ہے۔اسی دن جنرل ضیاء کے قانونی مشیر جناب اے کے بروہی صاحب کی موجودگی میں جسٹس انوار نے انقلاب کو رستہ ہی نہ دیا جنرل صاحب کو آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا۔عدلیہ اور عسکری اداروں میں صلاح مشورہ کی باز گشت موجودہ دور میں اس وقت سنی گئی جب پاکستان کے معروف ہوئے جج محمد بشیر کی عدالت بارے اخباروں نے لکھا کہ ایک ادارے کے افسر نے جج کے چمبر میں تنہائی میں ملاقات کی ہے۔
اگر عدالتوں میں فیصلے قانونی تواتر کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں تو تسلیم کرنا ہو گا کہ زمینی حقائق کا تغیر پذیر ہونا وقت کا مرہون منت ہوتا ہے۔