منگل، 26 اگست، 2025

خوابیدہ لوگوں خواب




تاریخ میں کچھ واقعات اور خواب ایسے ہوتے ہیں جو صدیوں تک عوامی شعور میں گردش کرتے رہتے ہیں، اور ان کی تعبیرات وقت کے ساتھ کئی رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ "شہنشاہ جارج اور تاج" سے متعلق ہے، جو روحانیت، سیاست، اور استعمار کی تاریخ کے سنگم پر کھڑا ہے۔
یہ واقعہ برصغیر میں برطانوی حکومت کے ابتدائی دور میں مشہور ہوا۔ خواب کے مطابق ایک بزرگ کو روحانی طور پر دکھایا گیا کہ شہنشاہ جارج پنجم 
 جس نے 1911ء میں دہلی دربار میں شرکت کر کے ہندوستان کا باقاعدہ تاج پہنا، اس کے سر سے تاج اتار دیا گیا۔ تاہم، جب وہ بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوا تو وہاں سے حکم ہوا کہ "تاج واپس اس کے سر پر رکھ دو۔" اس خواب کی تعبیر اس طرح کی گئی کہ انگریز راج کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے وقتی طور پر "روحانی اجازت" حاصل ہو چکی ہے۔
یہ خواب سب سے زیادہ حضرت مولانا غلام محمد سیالویؒ (1293ھ/1876ء – 1383ھ/1963ء) سے منسوب کیا جاتا ہے، جو کہ حضرت پیر مہر علی شاہؒ گولڑوی (1837–1937ء) کے ہم عصر بزرگ تھے۔ بعض روایتوں میں اس خواب کو سید احمد شہید بریلویؒ یا دیگر اولیاء کے حوالے سے بھی نقل کیا گیا ہے، مگر مقبولیت اور استناد کے لحاظ سے یہ روایت سب سے زیادہ سیال شریف کے بزرگوں سے منسوب ہو کر سامنے آتی ہے۔
یہ خواب نہ صرف عوامی محافل اور مذہبی بیانیے میں بیان کیا جاتا رہا ہے بلکہ کئی خطباء، صوفی شخصیات، اور غیر رسمی دینی حلقے اس واقعے کو انگریز حکومت کی "روحانی حیثیت" کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں۔ تاہم، اس روایت کی کوئی متفق علیہ سند یا مضبوط حوالہ روایتی کتبِ سیرت، تاریخ یا تصوف میں دستیاب نہیں۔ معروف محقق مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اس واقعے کو عوامی روایت قرار دیتے ہیں اور اس پر تائید یا تردید سے گریز کرتے ہیں، البتہ اسے کسی شرعی دلیل یا عقیدہ سازی کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ انگریز راج نے برصغیر میں اپنی حکومت کو صرف فوجی قوت سے نہیں، بلکہ مذہبی و روحانی تائید حاصل کر کے بھی مستحکم کیا۔ ایسے خواب اور روایات، جن میں انگریز حکومت کو خدائی تقدیر کا حصہ دکھایا جائے، دراصل نوآبادیاتی ذہنیت کی سادہ لوح عوام پر ایک نفسیاتی برتری قائم کرنے کی کوشش کا حصہ بھی سمجھے جا سکتے ہیں۔
کچھ دانشوروں اور محققین کا ماننا ہے کہ ایسے خوابوں کا فروغ استعمار کے اس بیانیے کا حصہ تھا جس کے تحت وہ خود کو "خیر کا نمائندہ" اور "مہذب حاکم" ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ چنانچہ جہاں ایک طرف انگریزوں نے علما کو دبایا، وہیں کچھ خانقاہی حلقوں کے ذریعے روحانی تائید حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔

کوئی تبصرے نہیں: