PAT لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
PAT لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اتوار، 25 فروری، 2018

شیطان پر لعنت


اس زمانے میں ہم ْ ٹاٹ ْ پر بیٹھ کر فارسی پڑہا کرتے تھے، فارسی تو بھول بھال گئی البتہ ایک جملہ اب بھی یاد ہے
ْ خانہ خالی را دیو می گیردْ ۔ مطلب اس کا استاد نے یہ بتایا تھا۔ اجڑے گھر میں دیو بسیرا بنا لیتے ہیں۔ یا ۔ زیادہ دستیاب وقت ذہن کو پراگندہ کر دیتا ہے ۔ یا ۔ بے کار ذہن منفی سوچ کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔ یا ۔ بے کار لوگ ، بھوک سے تلملا کر مجرم بن جاتے ہیں۔ 
بھلا ہو رائے ونڈ والی تبلیغی جماعت کا ، اور سبز عمامے والے مولانا الیاس کا، جنھوں نے بے کار نوجوانوں کو کسی کام پر لگا لیا ہوا ہے ۔ اس کام میں منہاج القرن نے بھی اپنا حصہ ڈالا توڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا کام
Quality wise
دوسروں سے منفرد رہا ۔ کہ پنڈلیوں سے اٹھتی شلوار اور سبز عماموں کی جگہ پتلون عصر حاضر کی ضرورت بتائی گئی۔اور دین کو ہم عصر کرنا علامہ صاحب کا ایسا کارنامہ ہے جس کی تعریف علامہ صا حب کو حوصلہ بخشتی ہے۔
دین کی تبلیغ اور اسلام کی خدمت بہت اچھا اور پسندیدہ عمل ہے بلکہ بقول علامہ قادری صاحب اصل جہاد ہی یہی ہے , مگر شیطان مردود کہ ابدی لعنتی ہے ، دین کے ان مجاہدوں کے کمزور مقامات پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور ان کے عقیدت مندوں کو ان سے متنفر کرتا ہے۔ اب فرید ملت ہسپتال کے نام پر اکٹھا کیے گئے چند ٹکوں کے عوض میزان میں ان کی تصنیفات کو رکھیں جس کی تعداد ہزاروں میں ہے تو یقین ہے کہ تصانیف کا وزن گراں ہی نکلے گا۔اور وہ لوگ دین کے ازلی دشمن ہیں جو نبی اکرم ﷺ کے نام سے منسوب کی گئی جگہ پر ماضی کے ایک معمولی سے قبضہ کرنے کے عمل کو بڑہا چڑہا کر پیش کرتے ہیں۔پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے کی نسبت قادری صاحب کے تعلیمی اداروں میں تنظیم کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ ان اداروں میں جنسی بے راہ روی کا الزام محض ان کی دینی خدمات کو بدنام کرنے کے مترادف ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں بسنے والے چند حاسدین معمولی واقعات کو بڑہا چڑہا کر پیش کرتے ہیں۔ واویلا کرنے والوں کو قادری صاحب کایہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان مردود انسان کا ازلی دشمن ہے اور بہترین تعوذ یہ ہے کہ مخالفین کی تحریریں پڑہی ہی نہ جائیں ۔ اور پڑھ لی جائیں تو ان پر یقین نہ کیا جائے ۔

اتوار، 28 جنوری، 2018

نیا اسلوب



شیخ الاسلام کے تبحر علمی کا اعتراف صوفیاء عظام کو بھی تھا گو علماء اس دور میں ہر قسم کی اعترافی بدعت سے مبرا رہے ۔مشائخ نے انھیں مسند ارشاد پر بٹھا کراپنے فیض سے نوازاان کا طوطی چار سو سلطنت بولنے لگاپھر حب
مال وجاء نے کروٹ بیداری لی تو شیخ نے کامیابی سے اس مرحلے کو بھی عبور کرلیاویزے،اقامے اور بدیسی پاسپورٹ جیب میں آئے۔لباس رہن سہن اور طرز عبادت کو نیا اسلوب عطا فرما کر مجددیت کا زینہ عبور کر ڈالااب جمعہ کی نماز مسجد میں ادا کی جاتی ہے تو فوٹو گرافر تصویر بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا ہے۔ یہ کرم کے فیصلے ہیں یہ ادب کا مقام ہے

پیر، 15 جنوری، 2018

گیارہ ستاروں میں قطبی ستارہ


لاہور میں سیاسی اکابرین خواب بھی دیکھتے ہیں اور ان پر عذاب بھی یہیں نازل ہوتا ہے۔ذولفقار علی بھٹو کے خلاف نو ستارے اور گیارہ پارٹیوں کی یاد سترہ جنوری کو پاکستان کے زندہ دلوں کے اسی شہر میں تازہ کی جائے گی۔

نوابزادہ نصراللہ خان کو تانگہ پارٹی کا لقب دیا گیا تھا مگر ان کے سیاسی قد سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لال حویلی والے شیخ رشید نے علم نجوم کے ذریعے ٹی وی کے چینلوں کوریٹنگ کے بہت تحفے دیے مگر سیاسی لیڈر جب تک ووٹ نہ جیت سکے اس کو مخالفین کے طعنے ہی مار دیتے ہیں۔اسلا�آباد میں ایک سیاست دان نے سامنے بٹھا کر کہا کہ تمھاری بولتی تمھارے گھر میں آ کر بند کی ہے ۔ مگر موجودہ ٓوازوں میں بلند تر آواز شیخ صاحب ہی کی ہے۔ 

موجودہ گیارہ ستاروں میں قطبی تارہ طاہر القادری کی ذات کی ہے۔ شریفوں کی اتفاق مسجد سے اڑان کے بعد طائر نے پنجاب کا لباس اتار کر عربوں کی ْ توپ ْ اور ترکوں کی "ٹوپی " پہن کر پاکستان کے پاسپورٹ کو بھی خیر آباد کہہ دیا تو برطانیہ میں ان کے مالی معاملات زیر بحث آئے ۔ اور یہ خوف ابھرا کہ پاکستان میں قران کی راہ منور کرنے پر لوگوں کا ایثار مایوسی پا کر چراغوں کو گل بھی کر سکتا ہے مگر عالم کی جب پانچوں گھی میں ہوں اور خوراک مین باداموں کے کشتے بھی شامل ہوں تو علم کا نور منور ہوتا ہے، اور قادری صاحب تو فلسفے اور منطق کے شارح ہیں۔

ہماری امیدوں کے مرکز اور انقلاب کے سرخیل کپتان کا پہلا کارنامہ 
Electables 
کا باسی اچاراکٹھا کرنا ، دوسرا اپنے نظریاتی جانبازوں کو دیوار کے ساتھ لگانا تیسرا نظریات اور جدوجہد کی بجائے تعویزوں اور پہاڑوں کی بلندیوں پہ چلے کاٹنا۔ سیاست کے بابوں کی تنقیدی سوچ کی اقتداء مگر اسد عمر جیسے منظم کی موجودگی میں جلسوں کی افرادی قوت کو ووٹ کی طاقت میں نہ بدل سکنا، اور سب سے بڑھ کر منفی تنقید اور نا مانوس بیانئے نے سنجیدہ ہمدردوں کو مایوسی سے دوچار کیا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ حلق کی پوری قوت کے ساتھ آپ کے بیانیے کو الیکٹرانک میڈیا اور قلم کی پوری طاقت سے پرنٹ میڈیا میں عوام کو سمجھانے والے آپ سے شاقی ہیں۔ جناب آپ ناکام ٹولے میں گھرکر مخلصین سے روز بروز محروم ہوتے جا رہے ہیں اور آپ کی میڈیا ٹیم کی کار گذاری یہ ہے کہ اس نے نئے پاکستان کے نعرے کے علمبردار کو کرسی کو ترستا شخص بنا دیا ہے ۔ البتہ ضد نے آج تک اور کس کی راہ سہل کی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر محترم صادق اور امین ہونے کے باوجود اپنے روائتی ووٹر سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ سیاست قریہ بلا ہے ، قاضی اللہ کو پیارے ہو چکے اور جس طلسم کے لوگ گرویدہ تھے وہ طلسم ٹوٹ چکا مگر جماعت اسلامی محدود سیاسی ووٹ بنک کے باوجود اپنا مقام رکھتی ہے ،کپتان نے جو فیض حاصل کرنا تھا کر چکے۔ اب کے جماعت اپنے اصل کی طرف پلٹے گی مگر مال روڈ پرنکلنے والی بارات میں جماعت کی افرادی قوت محدود ہی رہے گی۔ 
زرداری کی پیپلز پارٹی کو بے نظیر بھٹوکے بیٹے کی پارٹی بننے میں وقت درکار ہے اور فی الحال لاہور میں وہ قحط الرجال کا شکار ہے۔
لاہور میں یہ اجتماع شہباز شریف کی سیاسی زیست کے لیے فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا تھا ۔مگر سیاست بڑا بے رحم کھیل ہےْ ۔ بازی گروں نے بازی زبردست بچھائی ہے ۔یہ بازی مگرشطرنج کی ہے ۔ غلط چال کا ادراک کھلاڑیوں کو فروری کے مہینے میں ہوگا ۔ ناکامی کا بوجھ مگراناڑی پر نہیں ، کھلاڑی پر ہی ہوتا ہے۔

لال حویلی سے اٹھایا گیا یہ تاثر اپنا رنگ جمانے میں ناکام رہاہے کہ فوج اور عدلیہ بطور ادارہ کپتان کی پشت پر ہیں۔ اس رنگ بازی نے ان دو اداروں کو جو چونا لگایا ہے اس کے بعد ان اداروں میں اگر کوئی ہمدرد تھا بھی تو اب نہیں ہے۔

ہفتہ، 13 جنوری، 2018

عقلی میزان بمقابلہ اجتماعی ہاہاکار


سوچنا ، سمجھنا ، عقل کی میزان میں تولنا، فیصلہ کرنا، اور ۔۔۔ فیصلہ ہمارے جذبات سے ٹکرا جائے تو اپنی عقل کے فیصلے ہی کو دیوار کے ساتھ دے مارنا۔ یہ عمل اگر انفرادی طور پر غلط ہے تو اجتماعی طور پر بھی قال قبول نہیں ہو سکتا۔ مگر ہمارے معاشرے میں ایسے عمل کوماہرانہ سعی سے قابل قبول بنا کر اپنے فن کی داد وصول کی جاتی ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انفرادی عقلی میزان میں، ناقابل تسلیم بیانیہ ، اجتماعی ہا ہا کار میں مقبول مطالبہ بن جاتا ہے۔

اور یہ ہمارے معاشرے کا مجموعی چلن بن چکا ہے۔غصے کا تعلق محرومیوں ،معاشرتی نا انصافیوں اور پیٹ کی بھوک سے جوڑا جاتا ہے۔مگر ہم نے بار بار دیکھا ہے کہ ہمارے ماہرین نہائت کامیابی سے اس غصے کا رخ اپنے مخالفین کی جانب موڑ دیتے ہیں۔یہ جو کہا گیا تھا کہ علم معیشت کی نئی راہیں کھولتا ہے تو اب سمجھ آ جانی چاہئے کہ نئی راہیں تخلیق کرنی پڑتی ہیں اور ہر نئی راہ کی ایک منزل بھی ہوا کرتی ہے لیکن اس نئی منزل کی معاشرتی اقدار بھی اب ماہرین ہی طے کیا کریں گے۔

 اپریل 1985 کوکراچی میں بشریٰ زیدی نام کی ایک 20 سالہ لڑکی کو ایک تیز رفتار منی بس نے اسے کچل دیا۔مہاجر گھرانے کی بشریٰ کی موت پر احتجاج شروع ہوا ، مہاجر پشتون کشمکش میں کتنی جانیں گئی کتنے زخمی ہوئے اور کتنا معاشی نقصان ہوا سو ہوا مگر علاقہ میں کرفیو نافذ رہا ۔حتیٰ ناظم آباد کے ہر گھر میں ایک بالٹی پانی ہر وقت موجود رہتا تھا کہ کسی بھی وقت شروع ہو جانے والے آنسو گیس سے بچاو کیا جا سکے۔البتہ عشروں بعد جب بشریٰ کا خاندان بیرون ملک مقیم ہو گیا تو معلوم ہوا بس کا ڈرائیور تو کشمیری تھا۔اور علاقے کے لوگ سیاسی طور پراستعمال ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ، ڈھیر میں سے ایک مثال ہے کہ کیسے عام آدمی شاطروں کے منصوبوں کی بھٹی کا ایندہن بن کر خاکستر ہوتا ہے

سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور کارکنوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا مقصد حاصل کریں گے ۔البتہ مذہبی جماعتیں جو دین کے نام پر قائم ہیں اور اپنا مقصد دین کی ترویج بتاتی ہیں ۔ ان سے منسلک لوگ سیاسی طور پر معصوم مگر دینی پر پر مخلص ہوتے ہیں۔جب ان کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے، جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام اور جمیعت علمائے پاکستان ، مثال کے طور پر مذہبی مزاج کی سیاسی جماعتیں ہیں ، ان کی سیاسی سرگرمیوں پر کبھی کوئی معترض نہیں ہوا۔ منہاج القرآن کے ادارے کے سربراہ جناب طاہر القادری صاحب نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر سب کے رو برو سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھایا تھا ۔ ان کی دینی خدمات کے صلہ میں ، اور سیاست میں حصہ نہ لینے کے اعلان پر یقین کر کے ، مسلمانوں نے ان پر ہن نچھاور کر دیا مگر کچھ سالوں بعد ہی ان کے معاشی اسکینڈل سامنے آنا شروع ہو گئے۔ لوگوں کی شکایات سامنے آئیں کہ ان کی قیمتی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے اور وہ قادری صاحب کے اثر و رسوخ کے سامنے بے بس ہیں۔ اس پر جب ادارے کے اندر سے آواز بلند ہوئی تو ان کو ادارے میں تنظیم کے نام پر چپ کرایا گیاتو کئی لوگ جو اہم تنظیمی عہدیدار تھے ، انھوں نے شیخ الاسلام صاحب سے دوری اختیار کر لی۔مگر اب قادری صاحب کے پاس وسائل کی کثرت اور تشہیر کا وسیع میدان ہونے کے باعث چند دینی اور شفاف ذہن کے لوگوں کے چلے جانے پر کوئی تشویش نہ تھی۔ 

اسلام آباد میں دھرنے کی مخالف میں مشورہ دینے والوں اور دین کے نام پر حکمران گنجے ٹولے کی قبریں کھودنے کی مخالفت کرنے والوں کو بھی پچھلی صفوں مین بھیج دیا گیا ، کچھ تو جوتے پہن کر گھر جا چکے جو باقی ہیں وہ حیران ہیں کہ بولیں تو کیا اور چپ رہیں تو کیوں؟

قادری صاحب کا یکم جنوری کا طے شدہ مارچ ملتوی ہو ا اور 8 جنوری کی تایخ دی گئی۔ پھر سیاسی بھرم کو قائم رکھنے کے لیے 
17
 جنوری کی تاریخ دی گئی۔ اس دوران قصور والا واقعہ منظر عام پر آگیا ۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پوری  ملک سے جاندار مزاحمتی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں ۔قصور کے محمد امین جو مظلومہ زینب کے والدہیں ، ایک استاد اور شریف النفس انسان ہیں اور قادری صاحب کی پارٹی سے منسلک بھی ہیں، عمرے کی ادائیگی کے سفر کو مختصر کر کے واپس گھر پہنچے تو ، اطلاع کے باوجود کہ وہ رستے میں ہیں قادری صاحب نے جنازہ پڑہا دیا۔ قادری صاحب ،جو پاکستان کے بے مثل خطیب ہیں، نے اپنی طویل دعا کے ذریعے اپنے نوجوان کارکنوں ایسا دینی فیض تقسیم کیا کہ چند گھنٹوں میں قصور کے ڈی سی کے دفتر کا گیٹ ٹوٹ گیا ، دو گاڑیاں جل گئیں ، کئی نجی املاک کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ یاد رہے یہ واقعہ اس شہر میں پیش آّ رہا ہے جو بھارتی سرحد سے صرف
70
  کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔دو دن" میرا سوہنا شہر قصور" آگ کے شعلوں میں جلتا رہا ۔ اور مطالبہ یہ تھا کہ نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف اور وزیر قانوں ثنا اللہ مستعفی ہوں ۔ اصل ہدف تو شہباز شریف ہے ثنا اللہ کا نام تو محض قافیہ کا حصہ ہے۔ ہمیں ثنا اللہ سے د لچسپی ہے نہ شہباز شریف سے لگاو کہ اگر ان کے اعمال درست ہوتے تو دن دہاڑے یہ درندگی ممکن ہی نہ تھی۔ البتہ شام کو وضو کے بعد متبرک ہاتھ چہرے پر پھیر کر خود کو غیر سیاسی منوانے کے اصرار پر تعجب کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔

دین کے نام پر سیاسی کاز کے لیے اپنے دو کارکن مروا دینے سے شک ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے سینوں میں شاید انسان کا دل ہی نہیں ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین جن میں گنجا شہباز شریف اور اس کے چمچے شامل ہیں ۔ ان کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان رہے گی۔اور اس غریب راہ گیر کے خاندان کی اللہ تعالی نصرت فرمائے کہ وہ نہ قادری صاحب کا مرید تھا نہ شہباز کا پٹواری۔ اللہ تعالیٰ قائد کے اس پاکستان میں راہگیروں کو محفوظ رکھے
سوچئے گا ۔ ا نفرادی عقلی میزان میں، ناقابل تسلیم بیانیہ ، اجتماعی ہا ہا کار میں مقبول مطالبہ کیوں بن جاتا ہے