qadri لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
qadri لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ہفتہ، 13 جنوری، 2018

عقلی میزان بمقابلہ اجتماعی ہاہاکار


سوچنا ، سمجھنا ، عقل کی میزان میں تولنا، فیصلہ کرنا، اور ۔۔۔ فیصلہ ہمارے جذبات سے ٹکرا جائے تو اپنی عقل کے فیصلے ہی کو دیوار کے ساتھ دے مارنا۔ یہ عمل اگر انفرادی طور پر غلط ہے تو اجتماعی طور پر بھی قال قبول نہیں ہو سکتا۔ مگر ہمارے معاشرے میں ایسے عمل کوماہرانہ سعی سے قابل قبول بنا کر اپنے فن کی داد وصول کی جاتی ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انفرادی عقلی میزان میں، ناقابل تسلیم بیانیہ ، اجتماعی ہا ہا کار میں مقبول مطالبہ بن جاتا ہے۔

اور یہ ہمارے معاشرے کا مجموعی چلن بن چکا ہے۔غصے کا تعلق محرومیوں ،معاشرتی نا انصافیوں اور پیٹ کی بھوک سے جوڑا جاتا ہے۔مگر ہم نے بار بار دیکھا ہے کہ ہمارے ماہرین نہائت کامیابی سے اس غصے کا رخ اپنے مخالفین کی جانب موڑ دیتے ہیں۔یہ جو کہا گیا تھا کہ علم معیشت کی نئی راہیں کھولتا ہے تو اب سمجھ آ جانی چاہئے کہ نئی راہیں تخلیق کرنی پڑتی ہیں اور ہر نئی راہ کی ایک منزل بھی ہوا کرتی ہے لیکن اس نئی منزل کی معاشرتی اقدار بھی اب ماہرین ہی طے کیا کریں گے۔

 اپریل 1985 کوکراچی میں بشریٰ زیدی نام کی ایک 20 سالہ لڑکی کو ایک تیز رفتار منی بس نے اسے کچل دیا۔مہاجر گھرانے کی بشریٰ کی موت پر احتجاج شروع ہوا ، مہاجر پشتون کشمکش میں کتنی جانیں گئی کتنے زخمی ہوئے اور کتنا معاشی نقصان ہوا سو ہوا مگر علاقہ میں کرفیو نافذ رہا ۔حتیٰ ناظم آباد کے ہر گھر میں ایک بالٹی پانی ہر وقت موجود رہتا تھا کہ کسی بھی وقت شروع ہو جانے والے آنسو گیس سے بچاو کیا جا سکے۔البتہ عشروں بعد جب بشریٰ کا خاندان بیرون ملک مقیم ہو گیا تو معلوم ہوا بس کا ڈرائیور تو کشمیری تھا۔اور علاقے کے لوگ سیاسی طور پراستعمال ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ، ڈھیر میں سے ایک مثال ہے کہ کیسے عام آدمی شاطروں کے منصوبوں کی بھٹی کا ایندہن بن کر خاکستر ہوتا ہے

سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور کارکنوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا مقصد حاصل کریں گے ۔البتہ مذہبی جماعتیں جو دین کے نام پر قائم ہیں اور اپنا مقصد دین کی ترویج بتاتی ہیں ۔ ان سے منسلک لوگ سیاسی طور پر معصوم مگر دینی پر پر مخلص ہوتے ہیں۔جب ان کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے، جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام اور جمیعت علمائے پاکستان ، مثال کے طور پر مذہبی مزاج کی سیاسی جماعتیں ہیں ، ان کی سیاسی سرگرمیوں پر کبھی کوئی معترض نہیں ہوا۔ منہاج القرآن کے ادارے کے سربراہ جناب طاہر القادری صاحب نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر سب کے رو برو سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھایا تھا ۔ ان کی دینی خدمات کے صلہ میں ، اور سیاست میں حصہ نہ لینے کے اعلان پر یقین کر کے ، مسلمانوں نے ان پر ہن نچھاور کر دیا مگر کچھ سالوں بعد ہی ان کے معاشی اسکینڈل سامنے آنا شروع ہو گئے۔ لوگوں کی شکایات سامنے آئیں کہ ان کی قیمتی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے اور وہ قادری صاحب کے اثر و رسوخ کے سامنے بے بس ہیں۔ اس پر جب ادارے کے اندر سے آواز بلند ہوئی تو ان کو ادارے میں تنظیم کے نام پر چپ کرایا گیاتو کئی لوگ جو اہم تنظیمی عہدیدار تھے ، انھوں نے شیخ الاسلام صاحب سے دوری اختیار کر لی۔مگر اب قادری صاحب کے پاس وسائل کی کثرت اور تشہیر کا وسیع میدان ہونے کے باعث چند دینی اور شفاف ذہن کے لوگوں کے چلے جانے پر کوئی تشویش نہ تھی۔ 

اسلام آباد میں دھرنے کی مخالف میں مشورہ دینے والوں اور دین کے نام پر حکمران گنجے ٹولے کی قبریں کھودنے کی مخالفت کرنے والوں کو بھی پچھلی صفوں مین بھیج دیا گیا ، کچھ تو جوتے پہن کر گھر جا چکے جو باقی ہیں وہ حیران ہیں کہ بولیں تو کیا اور چپ رہیں تو کیوں؟

قادری صاحب کا یکم جنوری کا طے شدہ مارچ ملتوی ہو ا اور 8 جنوری کی تایخ دی گئی۔ پھر سیاسی بھرم کو قائم رکھنے کے لیے 
17
 جنوری کی تاریخ دی گئی۔ اس دوران قصور والا واقعہ منظر عام پر آگیا ۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پوری  ملک سے جاندار مزاحمتی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں ۔قصور کے محمد امین جو مظلومہ زینب کے والدہیں ، ایک استاد اور شریف النفس انسان ہیں اور قادری صاحب کی پارٹی سے منسلک بھی ہیں، عمرے کی ادائیگی کے سفر کو مختصر کر کے واپس گھر پہنچے تو ، اطلاع کے باوجود کہ وہ رستے میں ہیں قادری صاحب نے جنازہ پڑہا دیا۔ قادری صاحب ،جو پاکستان کے بے مثل خطیب ہیں، نے اپنی طویل دعا کے ذریعے اپنے نوجوان کارکنوں ایسا دینی فیض تقسیم کیا کہ چند گھنٹوں میں قصور کے ڈی سی کے دفتر کا گیٹ ٹوٹ گیا ، دو گاڑیاں جل گئیں ، کئی نجی املاک کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ یاد رہے یہ واقعہ اس شہر میں پیش آّ رہا ہے جو بھارتی سرحد سے صرف
70
  کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔دو دن" میرا سوہنا شہر قصور" آگ کے شعلوں میں جلتا رہا ۔ اور مطالبہ یہ تھا کہ نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف اور وزیر قانوں ثنا اللہ مستعفی ہوں ۔ اصل ہدف تو شہباز شریف ہے ثنا اللہ کا نام تو محض قافیہ کا حصہ ہے۔ ہمیں ثنا اللہ سے د لچسپی ہے نہ شہباز شریف سے لگاو کہ اگر ان کے اعمال درست ہوتے تو دن دہاڑے یہ درندگی ممکن ہی نہ تھی۔ البتہ شام کو وضو کے بعد متبرک ہاتھ چہرے پر پھیر کر خود کو غیر سیاسی منوانے کے اصرار پر تعجب کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔

دین کے نام پر سیاسی کاز کے لیے اپنے دو کارکن مروا دینے سے شک ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے سینوں میں شاید انسان کا دل ہی نہیں ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین جن میں گنجا شہباز شریف اور اس کے چمچے شامل ہیں ۔ ان کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان رہے گی۔اور اس غریب راہ گیر کے خاندان کی اللہ تعالی نصرت فرمائے کہ وہ نہ قادری صاحب کا مرید تھا نہ شہباز کا پٹواری۔ اللہ تعالیٰ قائد کے اس پاکستان میں راہگیروں کو محفوظ رکھے
سوچئے گا ۔ ا نفرادی عقلی میزان میں، ناقابل تسلیم بیانیہ ، اجتماعی ہا ہا کار میں مقبول مطالبہ کیوں بن جاتا ہے