election لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
election لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 3 جون، 2025

سمبڑیال کی گونج


عنوان: سمبڑیال کی گونج — مسلم لیگ کی فتح، پی ٹی آئی کی شکست اور سیاسی اتحاد کی نئی راہیں

پی پی 52 (سمبڑیال) میں مسلم لیگ (ن) کی حالیہ انتخابی کامیابی محض ایک حلقے کی فتح نہیں بلکہ پنجاب کی سیاسی فضا میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اس کامیابی کے اثرات نہ صرف مقامی سطح پر محسوس کیے جا رہے ہیں بلکہ قومی سیاست میں بھی ایک نئی صف بندی کے آثار ابھر رہے ہیں۔
مقامی اثرات: امیدوں کی تازگی
مسلم لیگ (ن) کی جیت سے حلقہ سمبڑیال کے عوام میں ایک نئی امید نے جنم لیا ہے۔ ترقیاتی کام، صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے اب توقعات بڑھ چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ صرف انتخاب جیتنے والی جماعت نہیں بلکہ عوامی خدمت میں بھی سنجیدہ ہے۔
تحریک انصاف: ایک خاموش دھچکا
پی ٹی آئی کے لیے یہ شکست غیر معمولی نقصان ہے۔ یہ وہی حلقہ ہے جہاں کبھی پی ٹی آئی کا بیانیہ، کرپشن مخالف مہم اور تبدیلی کا نعرہ گونجتا تھا۔ اب نہ صرف ووٹر کی ترجیح بدلی ہے بلکہ پارٹی کے اندر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں:
کیا امیدوار کا انتخاب درست تھا؟
کیا تنظیمی ڈھانچہ فعال تھا؟
کیا عوامی رابطہ مہم کمزور رہی؟
پی ٹی آئی کو اگر یہ شکست محض وقتی سمجھ کر نظرانداز کیا گیا تو آئندہ انتخابات میں مزید جھٹکے برداشت کرنا پڑ سکتے ہیں۔
اتحاد کی سیاست: ن لیگ کی جیت، پیپلز پارٹی کی ضرورت
سمبڑیال کی یہ کامیابی مسلم لیگ (ن) کو نہ صرف عوامی تائید بلکہ سیاسی اتحادوں میں سبقت دلا رہی ہے۔ پنجاب میں کمزور پڑتی پیپلز پارٹی اب ایک ایسے اتحادی کی تلاش میں ہے جو اسے قومی سطح پر دوبارہ مؤثر بننے میں مدد دے سکے۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا ممکنہ اتحاد اب پہلے سے کہیں زیادہ حقیقت کے قریب ہے۔
ن لیگ کے پاس زمینی اثر و رسوخ ہے،
جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس سندھ میں مضبوط گرفت اور وفاق میں کردار ادا کرنے کی خواہش۔
یہ کامیابی ن لیگ کو "سینئر پارٹنر" کے طور پر سامنے لاتی ہے، اور پیپلز پارٹی کے لیے اس اتحاد میں شراکت ناگزیر ہو جاتی ہے — خصوصاً پی ٹی آئی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں۔


نواز شریف کا تبصرہ


سمبڑیال کی فتح صرف ایک ایم پی اے کی سیٹ نہیں بلکہ پنجاب کی عوامی رائے کا ترجمان بنتی جا رہی ہے۔
یہ جیت بتاتی ہے کہ عوام اب کارکردگی کو نعروں پر ترجیح دے رہے ہیں، اور یہی پیغام اگلے انتخابات کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔



اب فیصلہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو کرنا ہے کہ وہ اس عوامی پیغام کو کس حکمت عملی میں ڈھالتی ہیں — روایتی سیاسی لڑائیوں میں ضائع کر دیتی ہیں، یا تحریک انصاف کے خلاف ایک مضبوط، متحد اور سنجیدہ سیاسی بلاک تشکیل دیتی ہیں۔

بدھ، 14 مارچ، 2018

مسکراتے لیڈر

 

فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ سول ادارے اور پولیس ان کو جان کا تحفظ دینے میں ناکام ہوئی ہے اور عسکری اداروں نے دہشت اور خوف کو قابو کر کے کامیابی کو اپنے قدم چومنے پر مجبور کیا ہوا ہے ۔ آسمان ابھی تک صاف نہیں ہے ،دہشت کے سائے اور خوف کے کالے بادل ختم نہیں ہوئے ہیں۔ انسانی جان کو اپنے تحفظ کا یقین نہیں ہے۔ جب انسان کی جان پر بنی ہوتو اس کی بھوک مفقود اورنیند عنقا ہو جایا کرتی ہے۔ ذائقے اور نرم بسترے بھی اسی وقت راحت بخشتے ہیں جب انسانی جان کو تحفظ دستیاب ہو۔متذکرہ علاقوں سے عسکری چھتری کو ہٹا کر حالات کا تصور کریں تو انسانی خون سڑکوں پر بہتا دکھائی دیتا ہے۔ ان حالات میں جمہوری تسلسل کو بحال رکھنے کے لئے موجودہ سینٹ کے انتخاب کے نتائج کو دیکھیں تو ان علاقوں سے منتخب ہونے والے افراد ، ان کا کردار ، جان کی خوف کا ڈر اور جان کے تحفظ کی قیمت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اوپر بیان کی گئی حالت کو اگر یوں بیان کیا جائے کہ انسان کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ بہت سی آسائشوں کو قربان کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ حکمرانی ایسا نشہ ہے کہ اس کو پورا کرنے کے لیے اپنے شہریوں کو فروخت کرنے کا ذکر ہمارے سابقہ نہ ڈرنے والے حکمران کی کتاب میں موجود ہے۔انسانوں کو عمارتوں کے اندر بند کر کے جلا دینا، جسم کو جلا دینے والے بارود سے بے ضرر بچیوں کو بھون دینا حکمرانی کے کھیل گردانے جاتے ہیں۔ دنیا میں آنکھوں پر پٹی صرف دو لوگوں کی آنکھوں پر بندھی دکھائی دیتی ہے ایک طاقت کی طمع کے حریص حکمران اور دوسرے انصاف کا میزان برابر رکھتے جج۔مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے حکمران کئی آنکھوں سے دیکھتا اور کئی کانوں سے سن رہا ہوتا ہے تو یہی حال جج کا ہوتا ہے کو ایک قاتل کو پھانسی پر لٹکانے سے پہلے کئی آنکھوں سے واقعات کو دیکھتا اور کئی کانوں سے حالات کو سنتا ہے۔
حکمرانی کو قائم رکھنے طریقے دو ہیں ایک طریقہ وہ ہے جو عمر بن خطاب نے اختیار کیا تھا مگر وہ مشکل اور کانٹوں بھری راہ ہے ۔ صرف کفار ہی اس کو اپنانے میں اپنی بقا پاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جو پاکستان میں ستر سالوں سے کامیابی سے جاری و ساری ہے ۔ اس طریقہ کو اپنانے کے لیے راکٹ سائنس کا ماہر ہونا لازمی نہیں ہے ۔ سادہ سا فارمولا ہے اور فارمولا بھی ایسا کہ مساوات کے دائیں رکھو یا بائیں نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔ اور فارمولا یہ ہے کہ عوام کو تعلیم سے دور رکھو۔
جان کا خطرہ درٓمدی اورنیا ہے مگر کارگر ہے۔ فاٹا و بلوچستان میں ہی نہیں کراچی میں بھی کامیاب ہوا ہے۔ جمہوریت کے متوالوں کو جان کی امان پا کر کرسی پر براجمان مسکراتے رہنماء مبارک ہوں ۔