Tahir Qadri لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Tahir Qadri لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 12 جنوری، 2018

دو آتشہ

تصوف ہمیشہ سے انسانوں کی دلچسپی کا سبب رہاہے ۔ اور اہل تصوف کو ہر معاشرہ اور مذہب میں بلکہ بے مذہبوں میں بھی احترام دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سب انسانوں کی بنیادی ضروریات ایک جیسی ہی ہوتی ہیں ، مثال کے طور پر ہمارے موجودہ وزیر اعظم صاحب روحانی فیض حا صل کرنے کو مفید خیال کرتے ہیں اور سابقہ دو وزرائے اعظم صاحبان جناب نواز شریف اور آصف زرداری اپنے اپنے پیر کو وزیر اعظم ہاوس میں مدعو کرتے رہتے تھے، اس سے قبل بے نظیر صاحبہ بھی مانسہرہ کے ایک بزرگ دیوانہ بابا کی چھڑی سے فیض یاب ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان بھی ایک بابے کے مرید تھے۔بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی ایک نانگے بابے کے آشرم پر سر جکاتے ہیں تو بھارت کی سابقہ وزیر اعظم اندرا گاندہی کے وقت میں ان کے روحانی گرو دھرندرا بھرم چاری نے بھی خوب نام کمایا
تھا


پسماندہ معاشروں میں مذہبی اور سیاسی رہنماعوام کے نجات دہندہ مانے جاتے ہیں ۔ معاشرتی اور معاشی طور پر مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان اپنی محرومیوں کی نجات کے لیے خواب نگر کا رخ کرتا ہے۔ اور جو رہنماء اپنے پیروکار وں کو جتنا بہتر خواب دکھلا سکتا ہے وہ اتنا ہی مقبول ہوتا چلا جاتا ہے ۔ یہ رہنماء ، مذہبی ہو یا سیاسی ، اپنے چاہنے والوں کے پجاری کا مقام حاصل کر لیتا ہے،مگر جب یہی پجاری اس رہنماء کی عدم استعداد سے با خبرہو جاتا ہے تو اس کی مثال خواب سے بیدار ہونے والے ایک فرد کی ہو جاتی ہے اور وہ یہ جان لیتا ہے کہ خود اپنی ذات کو متحر ک کئے بغیر اپنے حالات تبدیل نہیں کر سکتا ۔مگر اس بیداری کے بعد بھی وہ مواقع کی عدم دستیابی کے باعث اور دوسری طرف رہنماء اسی معاشرے کا ایک فرد ہونے کے باعث ہر وقت اپنی عدم استعداد کا پول کھل جانے سے خوفزدہ رہتا ہے ، وہ جانتاہے کہ اس کی مقبولیت کی عمارت کچی بنیاد پر کھڑی ہے اس کا خوف بھی اسے تصوف کی طرف مائل کرتا ہے۔ دراصل رہنماء و پیروکار میں مستقبل کا خوف مشترک ہوتا ہے اور دونوں ہی اپنے اپنے روحانی سفر پر گامزن ہوتے ہیں، مبارک پتھروں والی انگھوٹیاں، بلند درگاہوں کا طواف ، اوروظیفوں کا ورد دراصل مستقبل کے خوف سے بچنے کے حربے ہوتے ہیں۔ اور یہ عمل اس کو قدامت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔مثال کے طور پر پچھلے دنوں عمران خان ایک ویڈیو کلپ میں اپنی انگوٹھی مین جڑے در نجف دکھاتے نظر آئے ۔ مگر چند دنوں بعد چکوال میں ہونے والے الیکشن میں بری طرح ہار گئے۔حالانکہ ان کو نجومیوں نے بتایا ہوا تھا کہ وہ مستقبل کے وزیر اعظم ہیں۔ 
قصوں اور حکائتوں کی کتابوں کے مطابق زوال کے دور میں کمال کر دکھانا مذہب کا خاصہ ہے اور لوگ اسی خواب کی تعبیر کے لئے علامہ طاہر القادری صاحب کے گرویدہ ہیں کہا جاتا ہے کہ ان کے فن خطابت کی ٹکر کا کوئی دوسرا خظیب ہے ہی نہیں ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آسائش زندگی سے مستفید ہونا سب کا حق ہے اور اس حق کا پاکستان کی نسبت کینیڈا میں بہتر استعمال ہو سکتا ہے۔طاہر القادری صاحب کے نام کے ساتھ شیخ الاسلام کا لاحقہ ان کا خود اختیار کردہ نہیں ہے بلکہ وہ بھی کسی کا عطا کیا ہوا ہے۔
روس کے زاروں کا تصوف کا ایک بڑا کردار راسپیوٹن ہے مگر غیر اسلامی سہاروں کی داستانوں کے کرداروں کوہم اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور ایسے کرداروں کو شیخ الاسلام کا نام دے کر مقامی بنا لیتے ہیں اور اس اپنے پن سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم تصوف کے نام پر چابک کی ضرب با آسانی سہہ لیتے ہیں مگر غیر اسلامی تاریخ کا حوالہ ہمیں سیخ پا کر دیتا ہے۔یاد رہے شیخ الاسلام صاحب عدم تشدد کے سب سے بڑے داعی ہیں

نجومی بھابی وہ نام ہے جو اخباری حلقوں میں عمران خان کی نئی بیوی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ان کے بارے ہوشیار سیاسی ساتھی ہی نہیں بلکہ دینائے تصوف کے ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں علم نجوم کے ماہرین متفق ہیں کہ در نجف کی برکت حاصل ہو جانے اور گاڑی میں نجومی بھابی کو سوار کر لینے کے بعد ان کو شاہراہ دستورپر تیز رفتاری سے سفر کرنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔ ووٹ اور جمہوریت کی اذانوں کے بیچوں بیچ عمران خان کے اس یقین کو شیخ الاسلام کی اشیر آباد بھی حاصل ہے۔ تصوف اور نجوم کے باہمی ملاپ کے بعد بہت لوگ اس دو آتشہ سے معجزہ برآمد ہونے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی بھی امید پر مینہ نہ برسائے۔