مالی خودمختاری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
مالی خودمختاری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 30 جنوری، 2018

مالی خودمختاری


1984
 کی بات ہے کویت میں مقیم ایک پاکستانی خاندان اس وقت پریشانی کا شکاردیکھا جب ان کی پاکستانی خادمہ جو ان کے خاندان کے فرد کی طرح تھی ، پاکستان میں بعض ذاتی مجبوریوں کے باعث اچانک پاکستان چلی گئی،۶ افراد پر مشتمل اس خاندان کے سارے ہی افراد زندگی کی آسائشیں کمانے میں اس قدر مصروف تھے کہ ان کو سونے اورکھانے اور نمازکے لیے وقت نکالنا پڑہتا تھا۔ میاں صاحب نے عارضی طور پر دفتر سے ایک بنگالی لڑکے کو گھر بجھوا دیا اس کے باوجود کھانا ہوٹل سے آتا، کپڑے باہر سے استری کرائے جاتے وغیرہ اور جب میاں صاحب نے بتایا کہ خادمہ مل سکتی ہے مگر فلپائنی ہے اور غیر مسلمہ بھی تو سب نے رضامندی کا اظہار کیا۔ مگر پورے گھر کو جہاں ایک عورت سنبھالتی تھی اب دو عورتیں اور ایک مرد بھی اتنا کام نہ کر پاتے تھے۔ مگر میاں صاحب کی بیگم کو بڑی پریشانی ان کے غیر مسلم ہونے پر تھی ، تاجر میاں صاحب نے اس کا حل یہ نکالا کہ بیگم کو ان کے مسلمان بنانے کا آئیڈیا دیا جوکارگرثابت ہوا ۔ فلپائنی دونوں عورتیں تو دو ہفتے میں ہی مسلمان ہو گئیں مگر سیالکوٹ سے بلایا گیا شفقت عیسائی ہی رہا۔
رمضان کے مہینے میں ان کے ہاں افطاری کے بعد با جماعت نماز کی امامت تو میاں صاحب نے کرائی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی غیر موجودگی میں اپنی اولا د اور نو مسلم خادماوں کی امامت میاں صاحب کی بیگم کرتی ہیں ۔ ان کے بیٹے اپنی ماں کا امام بننے کی جرات سے عاری تھے اور یہ پاکستانی تہذیبی اور خاندانی احترام تھا۔
ایک بارمیں نے دوبئی میں ایک مصریہ کی امامت میں اس کی کمپنی کے ملازمین کو نماز پڑھتے دیکھا تو سوچا اس کی مالی خودمختاری نے اس عورت کو مردوں کا بھی امام بنا دیا حالانکہ ان جاہل مردوں کے معاشرہ میں جس میں عورت کا وجود جنس کے علاوہ ہر قسم کی شرمندگی کا حوالہ تھا۔اور سبب بے توقیری کا مالی بے اختیاری تھی ۔ 
ایک فرد، جو خود میں ادارہ تھے، علم حال و مستقبل کے حامل تھے،جبریل ان کے ہاں حاضری دیا کرتے تھے، ان کی رضاعی ماں ان کے پاس آئے تو احترام میں چادر بچھا دیا کرتے تھے، رضاعی بہن کی خواہش پوری کر کے دشمنوں کو بھی حیران کر دیا کرتے تھے۔ اپنی بیٹی کے احترام میں خلاف معمول کھڑے ہو جایا کرتے تھے ، ان میں اتنی اخلاقی جرات تھی اپنی زوجہ سے محبت کا اقرار اپنی زبان سے کر لیتے تھے ۔
دوبئی میں مقیم مصر کی ام ایمن جب بتاچکی کہ اس کی کمپنی اس کے باپ کے ترکے میں اس کے حصے میں آئی تھی۔تو اس کی زبان پر نبی الامی کے لئے درود سلام کیساتھ ہمارے لیے پانچ منٹ کا لیکچر تھا
کل ایک دوست نے یہ تصویر شیئرکی ہے اس پر تبصرہ علماء دین کا منصب ہے