کویت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کویت لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 9 جنوری، 2018

دلدل

پتہ نہیں وہ کالج میں آ کر مٹھو بناتھا یا بچپن سے تھا مگر میں گھریلو تربیت کی مجبوری کے تحت اسے ہمیشہ عبدالوہاب کہہ کر مخاطب کرتا اور میرا یہ عمل ہی ہماری دوستی کی بنیا د بنا ۔ رزق کمانے کا مرحلہ آیا تو انکشا ف ہوا میرا دانہ پانی بیرون ممالک میں بکھرا ہوا ہے ۔ رزق کے تعاقب میں کویت پہنچا ، ایک دن کویت یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں کسی نے میری پشت پرکھڑے ہو کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا
 ْ میں کون ْ 
میں نے چار سالوں کے ساتھ اور سات سالوں کے فراق کے باوجود عبد الوہاب کی آواز پہچان لی ۔ پردیس میں ایسی ملاقات کی مٹھاس کا ادراک کوئی پردیسی ہی لگا سکتا ہے۔ 
نو دولتیوں کے ملک میں تازہ تازہ بنائی گئی صاف و سیدہی سڑکوں پرہماری دوستی کی گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑہی۔ فروانیہ سے احمدی جانے والی تازہ بنی ہائی وے پر دوستی کی گاڑی تیز رفتاری کی آخری حد کو چھو گئی تومیں نے عبدالوہاب کو مٹھوکے نام سے پکارا ۔ اس نے گاڑی روک دی ، گاڑی سے اترا میں بھی اتر آیا ، ہم دونوں گلے ملے، دوستی کا ایک سنگ میل طے ہوا ، اورہم ہنستے ہوئے پھر اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔



پاکستان میں ہم دونوں ایک دوسرے کے گھر والوں سے آشنا ہی نہیں  بلکہ ہماری دوستی نے دونوں خاندانوں کو بھی ایک دوسرے کے قریب کر دیا تھا۔عبدالوہاب کے خاندان کے اعتقادات کی وجہ سے ہی میں نے ْ ابن تیمیہ ْ کو پڑہنا شروع کیا تھا اور مجھے یہ بھی معلوم تھا عبدالوہاب نے ْ کشف المجوب ْ خریدی ہے ۔ مگر اس وقت ہمار ا موضوع تبلیغی جماعت تھی ، مٹھو مجھے کئی بار جمعرات کے اجتماع میں لے جانے کی کوشش کر چکاتھا مگر اس دن وہ بہت سنجیدہ ہو گیا ۔ مگر میں سنجیدہ تو نہ ہوا مگر میں نے تبلیغ کے بارے جہاں سے بھی میسر ہوا معلومات اکٹھی کرنی شروع کر دی۔ مولانا حافظ محمد الیاسؒ کے خاندان اور خود ان کی ذات بارے میرے تجسس کا سبب مٹھو کی شخصیت تھی کہ میرے دیکھتے دیکھتے اس نے ٹائی اتاری، رنگین شرٹ پہننا چھوڑا اور پھر جب میں نے دیکھا کہ وہ ْ ثوب ْ جس کو مقامی لوگ دشداشہ کہتے وہ پہنا ہے تو میں نے کہا

ْ مٹھو تمھاری نوکری گئی ْ 
اور چند ہفتوں بعد ہی اس نے کہا
ْ منہ کھول کر زبان دکھاوْ 
میں نے گمان کیا اس کو ملازمت سے برخواست کر دیاگیا ہے
ْ جس کمپنی میں تم کام کرتے ہو ، اس میں جب تم پنڈلیاں ننگی کرنے کی سنت پوری کرو گئے تو
 پیشن گوئی کرنے کے لئے زبان کا کالا ہونا لازمی نہیں ہے ْ 
ْ دین کا کام قربانی مانگتا ہے ْ اس نے مطمن لہجے میں جواب دیا ۔ اب وہ کھل کر مرد میدان بن گیا مگر پردیس میں ملازمت کے بغیر رہنا نا ممکنات میں سے ، ایک مشترکہ دوست آصف کی سعی کام آئی، انٹرویو ہواشرائظ ملازمت پہلی ملازمت سے بہت بہتر۔ ابھی خوشی اور اطمینان سے سیر بھی نہ ہوئے تھے کہ آصف نے سرگوشی کی 
ْ اپنے دوست کو سمجھاو ْ کیوں، کیا ہوا ۔ 
آصف کی کمپنی سیکنڈ کی سوئی کی طرح وقت کے ساتھ چلتی اور ان کا لبنانی 
HR
 انچارج لباس کے رنگ تک کا خیال رکھتا تھا۔ سالوں پہلے آصف نے مجھے بتایا کہ ایک دن اس نے آصف کو اپنے دفتر میں بلایا اور ایک جرابوں کا جوڑاگفٹ کیا اور ساتھ نصیحت کی بے جوڑ رنگوں کا امتزاج شخصیت کا اچھا تاثر نہیں چھوڑتا ۔ 
آصف کی تشویش بجا تھی لیکن میرا ذاتی تجربہ کہتا تھا مٹھو نے میری بھی ماننی نہیں ہے ، جوانی کے ان دنوں، میں یقین سے کہتا تھا مذہبی لوگ ضدی ہوتے ہیں ۔ کمپنی نے اسے نکالا تو نہیں کہ ان دنوں کویت میں افرادی قوت کی قلت ہوا کرتی تھی ۔ البتہ مٹھو کو سٹور میں بھیج دیا گیا ۔ 

ہیر بھی راضی رانجھا بھی خوش ، مگر ترقی کی امید ْ مافی ْ ۔

خدا کی ذات بھی بڑی بے نیاز ہے مٹھو کی نمازوں کی برکت تھی ،اس کے ایمان کی قبولیت  یا قدرت اس 
پر مہربان تھی ۔ مٹھو نے عمرہ کرنے کی ٹھانی ۔ ایک ہفتے کی چھٹی کمپنی سے مانگی کمپنی نے انکار کر دیا ۔ مذہبی کی ضد اٹھ کھڑی ہوئی ،استعفیٰ لکھا ، کمپنی نے نا منظور کر دیا ، دین اور دنیا میں چناو کا مرحلہ 
آ گیا اور کمپنی کے مالک کے روبرو مستعفیٰ ہونے پیش ہوگیا ۔

مشرق وسطیٰ میں جہاں کفالت کا نظام رائج ہے، مستعفی ہونیکامطلب صرف ملازمت چھوڑنے تک محدود)
(نہیں ہوتا 
شام کو شاداب چہرے کی وجہ پوچھی ۔ روداد سنائی کہ وہ مستعفیٰ ہونے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا مالک نے وجہ دریافت کی ، مینیجر سے انٹر کام پر چھٹی کی سفارش کی اورچھٹی مل گئی
آصف کا، میرا بھی خیال تھا تعلیم یافتہ ملازمین کی کمی کی کرامت ہے مگر جب وہ اہلیہ اور بچی سمیت عمرہ کر کے واپس آیا توپتہ چلا کمپنی کے مالک کا ہم سفر تھا اور اس کی جیب سے دھیلا بھی خرچ نہیں ہوا بلکہ اس سفر نے مٹھو کو مالک کے اس قدر قریب کر دیا کہ اس کے لیے آسانیوں ، آسائشوں اور ترقی کا دروازہ کھل گیامگر مٹھو کا اصرار تھا یہ دین سے لگاو کا دنیامیں انعام ہے ، اس کے اس یقین نے اسے تبلیغ کے اس قدر قریب کر دیا کہ اب وہ دفتر سے سیدھا خیطان کے علاقے میں واقع تبلیغ کے مرکز آتا اور رات گئے گھر پہنچتا ۔ اپنی اہلیہ کو بھی اس نے اپنے پیچھے لگایا ہوا تھا ۔ اس کے کان میں وہ ایسا دم پھونکتا کہ متمول خاندان کی خوش لباس لڑکی نے بھی ْ راہبانہ ْ روش اپنا لی ہوئی تھی ۔ میری زوجہ کا ماننا تھا کہ ْ تعلیم یافتہ ْ لڑکی مظلوم ہے مگر اسے حیرت تھی کہ وہ ْ مطمن ْ ہے

ٓاس زمانے میں آصف کہا کرتا تھا ْ تبلیغ ایسی دلدل ہے جو اس میں اتر گیا اس کا واپس نکل آنا کرامت نہیں بلکہ معجزہ ہے ْ 


ہم نے مٹھو کو اس دلدل سے نکالنے کی بہت کوشش کہ مگر الٹا وہ ہمیں اپنے ساتھ گھسیٹنے کی کوشش کرتا ۔ اسکے پاس رٹے رٹائے دلائل تھے مگر ہمارے دلائل کار گر تھے۔ مارا پردیس آنے کا مقصد دینار کمانا تھا مگر وہ ہمارے مقصد کو حقیر بنا کے پیش کرتا اور حوروں کی خیالی مگردلکش تصویریں اور جنت میں شیش محلوں کی نظافت کو بڑہا چڑہا کر پیش کرتا ۔ میں تنہائی میں اکثر اس کے بارے سوچتا مٹھو پاگل نہیں ہے اس کا خاندان تبلیغ سے کوسوں دور ہے ، اس کی بیوی اور اس کا خاندان بھی اس قریے میں نامانوس ہیں ، کیا تبلیغ واقعی اطمینان بخش ہے ۔ مجھے احساس ہوا کہ میرے اندر سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔

جمعرات کی رات ، میرے گھر آصف اپنے دونوں بچوں و بیوی،رشید اپنی بیٹی و بیوی اور نجم اپنے بیٹے اور مادام ، کہ ہم اس کی بیوی کو اسی نام سے پکارتے تھے۔ موجود تھے ۔ مادام کی پیدائش کراچی کی، ابتدائی   تعلیم کویت کی اور ڈگری امریکہ کی 
Stanford
یونیورسٹی کی تھی۔ ہماری بیویوں میں اس کا معاشرتی قد سب سے لمبا تھا۔جمعرات کی اس رات ہم تاش کھیل رہے تھے ۔ میری اہلیہ نے چائے بنائی مادام ٹرے پکڑے کمرے میں آئی ۔ دوسری خواتین دوسرے کمرے میں ایک انڈین ڈرامہ دیکھ رہی تھیں ، میرے کانوں نے سنا 
ْ نجم آپ نے نماز نہیں پڑہی ، ٹائم ضائع ہی کر رہے ہیں ْ 
کہا جاتا ہے آندھی میں پہلے اونچے درخت گرتے ہیں ۔میں نے دل میں کہا یہ امریکہ پلٹ اور سرو قد درخت گر چکا ۔
مادام تو چائے رکھ کر چلی گئی مگر رشید نے نجم کو مخاظب کیا ْ لگتا ہے مادام کا مٹھو کے گھر آنا جانا زیادہ ہو گیا ہے ْ 
یہ فقرہ غزل کا مطلع ثابت ہوا ، بحث لمبی ہوتی گئی اور مقطع پر صبح کی آذان نے پہنچایا ، اس دن میرے رہائش پر صبح کی نماز باجماعت ہوئی نجم نے جس اعتماد اور لہجے میں قرات کی صاف معلوم ہو گیا وہ تجربہ کار ہے ،ناشتے کے بعد سب اپنے گھروں میں سونے چلے گئے ۔ میں بستر پر لیٹا تو اہلیہ نے رات کو دیکھے کے ڈرامے کے ڈائیلاگ کے انداز میں کہا 
 ْ گھر میں درجن بھر جائے نمازیں تو ہونی ہی چاہئے ْ 

رزق انسان کو اپنے پیچھے دوڑاتا ہے ، نجم کینیڈا جا بسا ، آصف نے دوبئی میں گاڑیوں کا شو روم کھول لیا ، مٹھو تبلیغ کرتے کرتے رائے ونڈ میں  زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر چکا، رشید اس مختصر سے گلوبل ولیج میں لا پتہ ہو گیا ۔ سب سے آخر میں واپس آ کر راولپنڈی میں بس جانے والا میں تھا۔

میرا بیٹا پانچویں جماعت میں فرسٹ آیا ۔ میں نے اہلیہ سے کہا میرا دل کرتا ہے اس لائق بچے کو قرآن کا 
حافظ بناوں۔ اس کا چہرہ کھل اٹھا
ْ آپنے تو میرے دل کی بات کہہ دی ْ 
جب بیٹا حافظ بن کے واپس آیامیں نے اپنی اہلیہ سے پوچھا 
ْ کیا ہماری سوچیں مٹھو کی ذات سے مثاتر ہیں ْ 

ہماری ہی نہیں سب کیْ اس کا اشارہ ہمارے دوسرے مشترکہ دوستوں کی طرف تھا ، عدنان تبلیغ میں چلہ لگانے کے بعد باقاعدگی سے تبلیغ کے نصاب پر چل رہا تھا۔ نجم خود بھی با عمل ہو چکا تھا اور بیٹے کو بھی شام کے وقت اسلامک سنٹر میں بھیجتاتھا، اور اس کے تیونسی استاد کو امید تھی وہ اسلام کا مبلغ بنے گا۔ آصف کی گھریلو زندگی اور بچوں میں دینداری ظا ہر تھی۔ 

نجم کا کہنا تھا یہ سال یادگار ہی رہے گا، اس کا خیال تھا ہم لوگ عملی زندگی کی انتہا کی طرف رواں دواں ہیں، بچے جوان ہو چکے ہیں، ان کی شادیاں کرنی ہیں پھربڑہاپا سر پر کھڑا ہے ہم لوگ مکہ میں حج کی سعادت حاصل کر کے رسول اللہ کے حرم کی زیارت کے لیے مدینہ المنورہ کی جانب محو سفر تھے ۔ اس سفر میں کینیڈا سے نجم اس کی بیوی اور تین بچے ساتھ تھے ، اس کا بڑا بیٹا محمد علی کویت میں ہمارے بچوں کے ساتھ کھیل چکا تھا ، فاطمہ اور زینب کینیڈا کی پیدائش تھے۔نجم کے دو دوست بمع خاندان ساتھ تھے ، ذوالفقار ، ہمار کالج کا ساتھی ۔ اپنی بیوی اور ایک بیٹی کے ساتھ آسٹریلیا سے آیا تھا ،امارا ت سے آصف اور اس کا خاندان اور پاکستان سے ہم کل بارہ خاندان یہ سفر کر رہے تھے۔روابط کی ان فراوانیوں کے دور میں، عملی اجتماع جس میں ایک ہاتھ دوسرے کو چھو سکے ، گو بہت بھلا محسوس ہوتا ہے مگر نایاب ہو جانے کو جلدی میں ہے ۔

اس سفر میں مٹھو ہمارے ساتھ نہ تھا مگر ہمارے رابطے میں تھا، دراصل اس کی دینی مصروفیات ایسی تھیں کہ اس کی ذات سے رابطہ بہت ہی کم ہوتا مگر اس کا خاندان ہماری دوستی کی ٹیم کا سرگرم ممبر تھا۔مٹھو بنیادی طور پر میرا دوست تھااور کویت میں رہائش کے دوران سب سے زیادہ قریب بھی۔مگر اس کی ذات اور خوبیوں سے ہمارے گروپ میں سب سے زیادہ مرعوب مسز اورنجم ہی تھے۔ مسز نجم تو ان کو اپنا روحانی رہنما کہتے نہ تھکتی تھیں۔ انھوں نے اپنے خاندان کی زندگی کا رخ ہی تبدیل کر دیا تھا۔میری اہلیہ نے مجھے بتایا کہ مسز نجم نے بیت اللہ میں دعا مانگی ہے کہ اس کے حافظ قرآن اور بنک مینیجر بیٹے کی شادی مٹھوکی بیٹی سے ہو جائے۔
کینیڈا سے نجم کا خاندن میرے گھر میں مہمان بن کر آیامگر اصل خوشی یہ تھی کہ اس کی بارات ہمارے گھر سے نکلے کی اور ہم مٹھو کی بیٹی کو بیاہ کر اپنے گھر لائیں گے۔ میری بیٹی نے دلہن کے کمرے کی سجاوٹ پر مشورے بھی شروع کر دئے تھے ۔
محمد علی گو میرے بڑے بیٹے سے دوسال بڑا تھا مگر وہ چند گھنٹوں میں ہی دوست بن گئے تھے ۔اور مسز نجم تو حج کے بعد ، پہلی دفعہ میں نے محسوس کیا ، عمل، پاکیزگی اور انکسار کے اس مقام پر ہیں جو ہم کتابوں میں پڑہتے تھے۔ ان کے اعمال تو نورانی تھے ہی ان کی گفتگو اور لہجے سے بھی ایمان کی پاکیزگی ٹپکتی تھی۔

ان کا ہمارے گھر میں پہلا دن تھا ۔ہم لوگ رات بارہ بجے سونے کے لئے اٹھے ۔ رات کو تین بجے میں حاجت کے لئے اٹھا ۔ محمد علی جس کمرے مین سویا تھا اس کی روشنی جل رہی تھی۔ میرا خیال تھالمبے سفر اور دن بھر کی مصروفیات اور لمبی گپ کے بعد نوجوان بستر پربے سدھ پڑا سو رہا ہوگا۔ مگر میں نے کویت میں پیدا ہونے والے، کینیڈا سے ڈگری حاصل کرن والے اس نو خیز کے عمل کو دیکھا تو میری آنکھیں کھلی ہی رہ گئی اور کلیجہ منہ کو آگیا۔ یہ تربیت ہے نورانی صورت والی مسز نجم کی


میں نے دیکھا تھا محمد علی کے سامنے ٹیب کھلا ہوا ہے ، اوروہ مدہم آواز میں تلاوت کر رہا ہے، آنکھوں سے شبنم گر رہی ہے میں نے اس کے سر ہاتھ پھیرا ماتھا چوما اور کہا 
ْ بیٹا سو جاو رات بہت ہو چکی ْ 
ْ ْ ہو سوری اپ میری وجہ سے ڈسٹرب ہوئے ْ اس نے محسوس کیا شائد اس کی آواز مجھے سونے نہیں دی رہی ہے ۔
ْ میں آپ کی آواز سے نہیں اٹھابلکہ واش روم جانے کے لیے اٹھا تھا، آپ سو جاو ، صبح اٹھ کر تلاوت کر لینا ْ 
۔ اصل میں ْ اس نے جھجکتے ہوئے کہا ْ میں پچھلے دو دنوں میں اپنی منزل پوری نہیں کر پایا ہوں ْ 
میں واپس بستر پر آیا تو نیند اڑ چکی تھی ۔ جب میں محمد علی کی عمر کا تھا۔ فلم چل پڑی ، ایک کے بعد ایک کلپ ، ایک صورت کے بعد دوسری صورت ، تصویروں کے اس سفر میں بار بار میرا ذہن ْ محمد رسول اللہ ْ کی طرف جاتا مگر تصویر نہ پاکر ْ مٹھو ْ کے ہیولے کی طرف مڑ جاتا ۔ مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا مٹھو نے تو زندگی کی معراج حاصل کر لی ۔ میرے اندر کا انسان جو مٹھو کو  فرسودہ خٰیالات کا حامل بتاتا تھا ۔ شرمندہ ہو کر رہ گیا۔ 
ْ ْ وہاب سے منسوب ْ عبد الوہاب ْ میرے منہ سے نکلا
ْ عبد الوہاب رائے ونڈ میں سو رہا ہے آپ بھی سو جائین اور مجھے بھی سونے دیں ْ میری اہلیہ نے مشورہ دیا
ہمیں خوشی تھی کہ ایسا رشتہ ہونے جارہا ہے جس کی بنیا د ْ حب اللہْ یا ْ حب دین ْ ہے ۔ میں میری اہلیہ میرے بچے، نجم ،بھابی ان کے تینوں بچے ، یوں لگتا تھا اور میری اہلیہ نے کہہ بھی دیا کہ عید کے دن کی طرح لگ رہا ہے۔ مجھے معلوم تھا مٹھو کا فون صرف رات کو کھلا ہوتا ہے میں نے اسے مطلع کیا اس کا مگر جواب تھا وہ جماعت کے ساتھ ہے جمعرات کو واپس مرکز اور جمعہ والے دن گھر آئے گا ۔ ہم لوگ اندر 
سے خوش تھے ، بات بات پر ہنستے تھے، میں نے شوخی بگھاری ْ بدھ سارے کم سدھْ اسپر قہقے لگے ۔ دوسرے دن مری کے مال روڈ سے نکلتی ایک پکڈنڈی کنارے بڑے پتھر پر بیٹھ کر نجم نے میرے اور اپنے 
بچوں کو بتایا ۔ مٹھو کیسا ، دین کے نام پر قربانی کرنے والا نیک انسان ہے کہ اس نے ہم جیسے دین سے پچھڑے دوستوں پر اپناکتنا وقت اور توانائی خرچ کی کہ ہم اللہ اور اللہ کے رسول کی راہ پر آ جائیں ۔ اس نے اعتراف کیا ہم تو اس راہ پر ، میں نے دیکھا آصف نے ہونٹ چنائے اور آنکھوں کی نمی کو سنبھالا، لیکن ہم نے اپنی اولاد کو قبلہ رخ کر دیا ہے ، اس نے مٹھو کے لیے عقیدت بھرے خوبصورت الفاظ استعمال کیے اور ہم نے تائید کی۔ آصف کا چھوٹا بیٹا بولا مٹھو انکل تو فرشتہ ہیں ۔محمد علی نے اسے بتایا ْ انسان فرشتوں سے سینئر ہوتے ہیں ْ


جمعہ کی نمازکے بعدہم ہنستے قہقے لگاتے مٹھو کے گھر پہنچے ہم خوشیوں کے پیام بر جو تھے ۔ خود مٹھو نے ہمارا استقبال کیا، مردوں کو بیٹھک میں اور عورتوں کو اندر علیحدہ بٹھا دیا گیا ۔ نجم کو اچھا لگا ، ہم لوگ ایک شرعی ماحول کے حامل گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔مغرب کی نماز محلے کی مسجد میں ابھی نامکمل ہی تھی کہ مٹھو نے باہر کا رخ کیا ، میرا گمان صیح نکلا۔ وہ مجھ سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا تھا ، بات مختصر تھی اور دو ٹوک تھی ۔میں نے حیرت سے سنا ْ ہم لوگ جٹ ہیں میں مٹروے سے کیسے بیٹی بیاہ دوں ْ میرے جذبات رو دئے ، دل چاہتا تھا مٹھو سے بات کروں اس کو قائل کروں اس کی آنکھوں میں ضدی انسان صاف نظر آرہا تھا ۔ دوسرے لوگ بھی نماز پڑھ کر باہر نکل آئے ۔ گھر آئے کھانا تیار تھا ۔ سب نے کھایا مگر میں نے زہر مار کر ہی رہا تھا کہ نجم نے اشارے شروع کیے کہ بات شروع کروں لیکن میں اشارے نہیں سمجھ رہا تھا ۔ مجبورا نجم نے خود ہی ، کویت میں ساتھ گذرے واقعات کی یاد دہانی سے ابتداء کی اپنی دینی نالائقیوں پر تاسف کا اظہار کیاا، محمد علی کی تعلیم، حفظ قرآن، جامعہ الازہر میں سال بھر کی اقامت،جاب سے ہوتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ کھانے کے بعد خواتین کو بھی بلا لیا جائے کہ اب ہم آپس میں رشتے دار بننے جا رہے ہیں ۔ مٹھو کا تیار جواب یہ تھا 
ْ میرے گھر کی خواتین نا محرم کے سامنے نہیں آتیں ْ 
اور رشتے داری کا جواب دینے کے لیے میرے طرف اشارہ کیا لیکن آج اشارے میری سمجھ میں نہیں آ رہے تھے ۔بھلا ہو موذن کا ، کہ کلمہ کبریائی بلند کیا ۔مٹھو نماز کے لیے اٹھا ۔اس کے ساتھ سب اٹھ دئے۔ میں نے کہا مجھے اہلیہ سے بات کرنی ہے آپ لوگ جائیں ، میں نے فون کر کے اہلیہ کو بلایا۔ مٹھوکی بیوی بھی آ گئی، علیک سلیک کے بعد میں نے گلہ کیا کہ آپ نے مٹھو کو بے خبر رکھا ، عورت مسکرا دی ، سالوں پہلے اس مسکراہٹ میں جو تقدس ہوتا تھا اس کی جگہ مجھے عزم دکھائی دیا ۔اور اس کا عملی اظہار بھی دیکھ لیا کہ انھوں نے سب خواتین کو بھی بیٹھک میں بلا لیا، میری اہلیہ میرے پہلو لگ کے بیٹھی۔ میرا سوال جوا ب کا منتظر تھا 
ْ بھائی صاحب ْ 
میں نے سنا اور سنتاہی چلا گیا نمازی واپس آ گئے ، آصف نے جھجک کر سلام کیا مگر جلدجھجک ختم ہو گئی، ماحول میں گرم جوشی در آئی، مٹھو کو مگر میں نے گرم جوشی سے دور ہی پایا ۔ وہ گفتگومیں شامل رہا مگر شکستہ لفظوں اور ٹوٹے عزم کے ساتھ۔ چائے کا دور چلتا اور باتوں کا نیا دور شروع ہو جاتا ۔ رشتہ رات ہی کو طے ہو چکا تھا ۔ مگر منگنی کی رسم دن کو رکھی گئی۔ 
مٹھو کی برادری اور محلہ سے بہت لوگ جمع تھے ، ڈھول والے بھی آگئے، گھر کے اندرسب کو نظر آ گیا فیصلے کی چابی کہاں ہے، فیصلے ہو چکے تھے، کل لڑکی نے پاسپورٹ کے لیے اپلائی کرنا تھا، برات نے ہفتہ کے دن آناتھا۔ ہم واپس گاڑیوں میں بیٹھے گھر کے سب افرادنے پر تپاک مگرمیں نے عبدالوہاب کو پکار کر گلے لگایا ۔
میرے ساتھ میری اہلیہ دو بچے اور مسز نجم تھیں ۔
میں نے کہا ْ عبدالوہاب کے گھر تو انقلاب آچکا ہے 
ْ آپ نے مٹھو کو عبدالوہاب کہا ، میری اہلیہ نے چونک کر پوچھا
ْ اب بچوں کے جوان ہو جانے کے بعد ہمیں ایک دوسرے کو عزت والے نام سے پکارنا چاہیے ْ 
ْ راستے سے مٹھائی لے لیں،ہم معرکہ سر کے واپس آ رہے تھے ، خوشی کا موقع ہے ْ میں نے گاڑی روکی ، مٹھائی لی ۔
دوسری گاڑی سے میری بیٹی ، نجم کی دونوں بیٹیاں باہر آئیں ، انکل ہمیں ڈھولک لینی ہے ، مجھے معلوم تھا یہ شرارت میری شہزادی ہی کی ہے ۔ خوشی کا موقع تھا ۔ پردیس میں بستے پھولوں کی زندگی میں پھر یہ دن آئے نہ آئے ۔ میں نے خواہش پوری کردی۔


یک ہفتہ میرے گھر میں خوشیاں اچھلتی ، کودتی اور ناچتی رہیں، نجم کے خاندان کی اگلی نسل میرے خاندان کی اگلی نسل کے ساتھ گھل مل گئی تھی ۔ میں اور میری اہلیہ نے بھی اس موقع کو یادگار بنانے کی اپنی بساط بھر سہی کی۔ ہم نے خالص پنجابی رسم ورواج پورے کئے۔ میری شہزادی اور نجم کی بیٹیوں نے دلہن کے کمرے کو سجانا شروع کیاتومجھے سامان کی لمبی لسٹ تھما دی ۔ میں اندر سے خوش تھا مگر اپنا آپ دکھایا
ْ باقی تو سب ٹھیک ہے مگر لوہے کی تار کو کیا کرنا ہےْ 
میں نے دیکھا تینوں بچیوں کے منہ لٹک گئے ۔ میں نے تینوں کو ساتھ لیا ۔ انھوں نے جو چاہا لیا۔
تینوں بچیاں سارا دن کمرے کی سجاوٹ میں گزارتیں۔اور شام کو تالا لگا کر رکھتی کہ کوئی دیکھ نہ پائے۔ مسز نجم کو بھی اس کی بیٹیوں نے اصرارکے باوجود چابی نہ دی ۔یہ کمرہ اسی دن کھلے گا جس دن ہماری بھابی یہاں آئے گی۔ بچوں کی ضد پر وہ بھی مسکرا دیں۔
زندگی میں بچوں کی، ان کی خوشیوں کی، خوشی کے موقع پر ان کی ضد کی، ضد پوری کرنے پر مسرت کی ، جو خوشیاں ہوتی ہیں ان کو الفاظ میں کون ڈھال پایا ہے ۔ 

میری اہلیہ ے پوچھا 
ْ دلہن کو کیا دینا ہے ْ 
ْ جو مرضی ہے دے دو ْ 
ْ ایک لہنگا دے دیں، اور برات کا استقبال اپنے ذمہ لے لیں ْ 
ْ تمھارا دماغ ٹھیک ہے ْ حالات تمھارے سامنے  ہیں 
ْ کیا ہوا ہے ہمارے حالات کو ۔ ہمارے اوپر اللہ کا شکر ہے ، آپ ے ساریزندگی محنت  کی ہے ، کسی ضرورت مند کے لیےچند ٹکوں کا ایثار ہی کام آئے گا ْ 
اس نا شکری عورت کے منہ سے میں نے زندگی میں پہلی بار اپنی محنت کا اعتراف سنا لیکن سبب سمجھ نہ آیا
ْ کھل کر بات کرو ْ 
ْ لڑکی نے جو لہنگا پسند کیا ہے اس کی قیمت پچپن ہزار ہے
ْ تو کیا ہوا ۔ لے کر دے گا نا اس کا ب ۔۔۔۔
میں بات پوری نہ کر سکا ۔ مجھے ْ ضرورت مند ْ کا مطلب بھی سمجھ آ گیا ۔ اور چالیس سالوں سے ذہنی کشمکش سے بھی چھٹکارا مل گیا۔ 
ْ تمیں معلوم ہے میں تمھاری کوئی بات نہیں ٹالتا جو مرضی ہے لے دو ْ ْ

ایسا کرتے ہیں صبح خالدہ اور دلہن کو ان کے گھر سے لیتے ہیں مارکیٹ سے واپسی پر میرج ھال والے کو   پے منٹ  کر دیں گے

بکنگ تو خالدہ نے پہلے ہی کرائی ہوئی ہے 
بکنگ بھی خالدہ نے کرائی ہے ۔۔۔ اتنا بھی نہ کر  سکا ایک باپ ۔۔۔۔۔