punjab لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
punjab لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

منگل، 1 جولائی، 2025

پنجاب کو یہ جنگ لڑنا ہو گی





پنجاب کو پانی اور ماحول بچانے کی جنگ لڑنا ہو گی

پاکستان اس وقت پانی کی قلت کے خطرناک دہانے پر کھڑا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس چیخ چیخ کر متنبہ کر رہی ہیں، مگر ہمارے ایوان اور حکومتی حلقے شاید ابھی تک خوابِ غفلت میں ہیں۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز 
 کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں پانی کی قلت سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ 1947 میں ہمارے پاس فی کس 5,260 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا، جو اب کم ہو کر محض 850 مکعب میٹر رہ گیا ہے — یہ وہ حد ہے جس کے نیچے اترنے کو عالمی زبان میں "آبی قحط" 
 کہا جاتا ہے۔
دوسری طرف ہر سال تقریباً 30 ملین ایکڑ فٹ پانی، جو ہماری زمینوں کو زرخیز بنا سکتا تھا، سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔ ( وزارت آبی وسائل، پاکستان، 2022)۔
المیہ یہ ہے کہ تربیلا ڈیم کے بعد ہم کوئی بڑا آبی ذخیرہ تعمیر نہ کر سکے۔ کالا باغ ڈیم ہو یا بھاشا دیامر اور مہمند ڈیم — یہ سب سیاست، سستی اور وسائل کی کمی کی نذر ہو چکے ہیں۔
ادھر بھارت، سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھیرتا ہوا، چناب، جہلم اور دیگر دریاؤں پر 150 سے زائد ڈیم اور منصوبے مکمل کر چکا ہے۔ 
، جب تک پاکستان خود پانی ذخیرہ نہیں کرے گا، دنیا میں کوئی طاقت ہمیں آبی تحفظ نہیں دے سکتی۔
یہ وقت ہے کہ پنجاب پہل کرے۔ محض بڑے ڈیموں پر انحصار کافی نہیں، ہمیں مقامی سطح پر انقلابی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اس ضمن میں ایک سادہ مگر مؤثر تجویز سامنے ہے — پنجاب کے ہر گاؤں، ہر چک اور ہر ڈھوک میں ایک تالاب لازمی تعمیر کیا جائے۔
یہ تالاب نہ صرف بارشی پانی محفوظ کرے گا بلکہ:
 مقامی سطح پر زراعت کے لیے پانی میسر آئے گا۔
 زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو گی۔
 تالاب کے گرد شجرکاری سے ماحول بہتر ہو گا، درجہ حرارت میں کمی آئے گی۔
 مقامی جنگلی حیات اور چرند پرند کیلئے پانی کی دستیابی ممکن ہو گی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس
 کی 2021 کی تحقیق کے مطابق اگر مقامی سطح پر تالاب اور چھوٹے ڈیمز تعمیر کیے جائیں تو مقامی معیشت میں 20 سے 30 فیصد بہتری آ سکتی ہے۔
چین، اسرائیل اور دنیا کے دیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لے کر بارشی پانی کا ایک ایک قطرہ محفوظ کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کے پہاڑی علاقوں، رود کوہیوں، چشموں اور برساتی نالوں پر اگر چھوٹے ذخائر اور تالاب بن جائیں تو ہم نہ صرف سیلابی تباہی روک سکتے ہیں بلکہ مقامی معیشت، ماحول اور زراعت کو بھی نئی زندگی دے سکتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ سیاستدانوں کی انا سے بالاتر ہو کر پانی کے مسئلے کو قومی ایجنڈا بنایا جائے۔ ہر گاؤں میں تالاب کی تعمیر کو بلدیاتی منصوبوں میں شامل کرنا ہوگا، بڑے آبی ذخائر پر کام تیز کرنا ہوگا اور عوام کو پانی کے تحفظ کی اہمیت سمجھانی ہوگی۔
پانی کے بغیر نہ زراعت بچے گی، نہ صنعت، نہ زندگی — اور نہ ہی پاکستان۔

پیر، 4 مارچ، 2019

پنجاب پولیس

                  
پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران بھارتی ابینندن نامی ہوا باز جس کے جہاز کو پاکستان نے گرایا اور اسے گرفتار کرنے کے بعدامن اور جذبہ خیر سگالی کے اظہارکے طور پر آزاد کر کے واپس بھارت کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کی رہائی پر پاکستانی سوشل میڈیا میں ہلکے پھلکے اندازمیں تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ایک منچلے نے لکھا 
ْ شکر ہے ابینندن پنجاب پولیس کے ہاتھ نہیں چڑہا ورنہ اب تک ۔۔۔آگے پنجاب پولیس کی نااہلی، قانون شکنی اور منہ زوری پر پھبتی کسی گئی تھی۔
پاکستان میں جب میاں نواز شریف کی پہلی بار حکومت ختم ہوئی تو میاں صاحب نے راولپنڈی سے لاہور کا سفر ٹرین میں کیا۔ ایک ریلوے سٹیشن پر پنجاب پولیس کے عوام کو ڈنڈے مارنے پر میاں صاحب نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا ْ یہ کیا ہو رہا ہے ْ پولیس افسر کا جواب تھا ْ سر وہی کچھ ہو رہا ہے جس کی طرف میں نے اپ کی توجہ دلائی تھی ْ 
واقعہ یہ ہوا تھاکہ فوجی دور میں ایک ٹریفک پولیس کا اہلکار اپنی ڈیوٹی کے دوران ایک وزیر نے سڑک سے گذرتے گذرتے ڈیوٹی سے معطل کردیاتھا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ پولیس اہلکار کو کسی بھی محکمے کا وزیر معطل کر دے بلکہ ہم نے تو دوسرے اداروں کے افسران کو بھی پولیس والوں کو ڈیوٹی کے دوران معطل ہوتے دیکھا۔۔۔
کیا پنجاب پولیس ہے ہی اسی لائق کہ اس کو سوشل میڈیا پر طنز کا نشانہ بنایا جائے یا پنجاب پولیس کے ہاتھ باندھ کر اس سے معجزوں کی امید کی جاتی ہے۔میں ایک واقعے کا شاہد ہوں ۔ جس میں راولپنڈی پولیس کے دو اہلکاروں نے اپنے ذاتی موٹر سائیکل پر مجرموں کا پیچھا کیا جو گاڑی میں سوار تھے۔ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھوں نے گاڑی کو جا لیا۔ اور چلتے موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے اہلکار نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آئی رائفل تان کر انھیں گاڑی روکنے کا کہا۔ گاڑی نے موٹر سائیکل کو گرانے کی کوشش کی توپولیس اہلکار نے گاڑی کے دو ٹائروں کو برسٹ کر کے گاڑی کو رکنے پر مجبور کر دیا۔ میرا خیال تھا ان جوانوں کی فرض شناسی، قانون کی حرمت کی رکھوالی اور بہادری پر انھیں سراہا جائے گا مگر ہوا یہ کہ دو چلی ہو گولیوں کے خالی خول پیش نہ کر سکنے پر دونوں کے خلاف انکوائری بٹھا دی گئی۔
ایک دوسرا واقعہ بھی میرے سامنے کا ہے ۔ جس میں ایک ضعیف العمر غریب خاتون اپنے معصوم اور یتیم پوتوں کے ساتھ اپنی چادر کی جھولی پھیلا کراور جذبات میں ڈوب کر پولیس والوں کو دعائیں دے رہی تھی ۔ کرائے پر رہنے والی اس خاتون کے مرحوم بیٹے کے پلاٹ پر قبضہ مافیا کے ایک بڑے نے قبضہ کر لیا تھا اوراس کے آدمیوں نے بوڑہی خاتون اور اس کی بہو کو دہمکایا بھی تھا۔ پولیس کی مداخلت پر پلاٹ سے قبضہ ختم ہوا، قبضہ مافیا کے سرغنہ نے خاتون کے گھر آکر اپنے آدمیوں کے رویے کی معافی مانگی اور خود اس خاندان کو تحفظ کا یقین دلایا۔
مقصدواقعات سنانا نہیں ہے بلکہ حقیقت کا احساس دلانا ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پنجاب پولیس نہ ہوتو پنجاب کے بد معاش، شر پسند، چور ، ڈکیت اور قبضہ مافیاچند دنوں میں ہی ظلم و بربریت کی داستان مکمل کر لیں۔ 
مال روڈ پر پولیس کے شہداء کی یادگارہمیں پنجاب پولیس کے ان جوانوں کی یاد دلاتی ہے جنھوں نے پنجاب میں امن لانے کے لیے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر شہادت پائی ہے۔ جب لاہور میں کھڑے ہو کر ایک شہری اونچی آواز میں کہتا ہے ْ ہمیں پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں پر فخر ہے، پنجاب پولیس وہ ادارہ ہے جس کے جوان جان کی بازی لگا کر اپنے شہریوں کی حفاظت کرتے ہیںْ تو وہ گیارہ کروڑ سے زیادہ پنجاب کے باسیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ 
دہشت گردی کے خلاف اس ادارے کے ڈیڑھ ہزار جوانوں نے اپنے گرم خون سے بندباندہا ہے۔اور سینے پر گولیاں کھائی ہیں۔
حالات جن میں پنجاب پولیس اپنا فرض نبھا رہی ہے یہ ہیں کہ پولیس اہلکار کے پاس ذرائع نقل و حرکت مفقود ہیں، ڈیوٹی کے اوقات محدودنہیں ہیں، رہائش یا تو نایاب ہیں یا تھانوں کے عقب میں کھنڈر نما بارک ہے جس کی مرمت کرائے عشرے بیت چکے ہیں۔واش روم نایاب ہیں۔کھانے کے لیے میس کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تھانے کے بازو میں کسی نے ڈھابہ بنا لیا تووہ جو کچھ لاکر رکھے گا اس کو خوراک کہا جاتا ہے۔ ملازمت کے لوازمات میں چلائی گئی گولی کے خالی خول واپس لا کر ان کا حساب دینا ہوتاہے۔ 
سڑک پر چلتے موٹر سائیکل سوار اور گاڑیوں والے رک کر پولیس اہلکاروں کو لفٹ دے رہے ہوتے ہیں تو یہ اظہار نفرت یا پنجاب پولیس کا خوف نہیں ہے بلکہ اپنے پن کا احساس ہے۔سابقہ دور میں پولیس کے ایک حصے کو جدیدہیوی بائیک،جدید ترین اسلحہ، اور قانوں ن سے آگاہی د ی گئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے چوہنگ ٹرینگ سینٹر میں کھڑے ہو کر اس کی تعریف کی۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں جان بوجھ کر پنجاب پولیس کے خلاف ْ کنٹینرْ والی زبان سوشل میڈیا پر استعمال کی جاری ہے ۔ یہ یاد نہیں رکھا جاتا یہ انڈین پنجاب کی پولیس نہیں بلکہ پاکستان کی پولیس ہے ۔ جو معزز لیڈران اور وی آئی پی شخصیات کی چوبیس گھنٹے حفاطت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔یہ کھلے بازار، سکول جاتے بچے، اپنے فرائض ادا کرتی خواتین اور محفوظ شاہرائیں، بین الاقوامی مسافروں سے بھرے ائرپورٹ اور سب سے بڑھ کر وہ بیرونی سرمایہ کاری جس کی آج کل پاکستان کو بہت ضرورت ہے اس امن کی مرہون منت ہے جو پولیس قائم کرتی ہے۔
عشرے گذر گئے رہنماء اداروں کا دورے کرتے ہیں ۔ وعدے کرتے ہیں۔ حالات کی بہتری کی امید دلاتے ہیں ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ نے بھی لاہور کے ایک پولیس تربیتی ادارے میں کھڑے ہو کر بڑے دلپذیر وعدے کیے تھے مگر ان میں سے ایک وعدہ بھی وفا نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود نہ پنجاب پولیس اپنے فرائض سے کوتائی کی مرتکب ہو رہی ہے نہ عوام پنجاب پولیس سے مایوس ہیں ۔ 
اگر موجودہ حکومت اپنے دعوے کے مطابق پنجاب پولیس میں تبدیلی لانے کے لیے صدیوں پرانا قانونی ڈھانچا تبدیل کرنے کے وعدے سے یو ٹرن لے چکی ہے ۔ تو عوام کے پاس خاموشی کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے۔ عوام کو بتا دیا گیا ہے کہ بڑا لیڈر بننے کی سیڑہی یو ٹرن ہے ۔ البتہ عوام کواپنے اداروں پر پھبتیاں پریشان کرتی ہیں۔ اگر عدالتوں کو پھبتیاں کسنا قابل مذمت ہے تو پنجاب پولیس پر پھبتیاں کسنا بھی قابل مذمت ہی قرار پائے گا