قول و فعل کا تضاد — شخصیت اور معاشرے کا زوال
قول و فعل کا تضاد — یعنی زبان سے کسی بات کا دعویٰ کرنا لیکن عمل میں اس کے برعکس چلنا — ایک سنگین اخلاقی بیماری ہے جو فرد کی سچائی، کردار اور معاشرتی اعتبار کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف معاشرتی بداعتمادی کو جنم دیتا ہے بلکہ خود انسان کی شخصیت کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس روش کو سخت ناپسند فرمایا ہے:
"اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں۔"(سورۃ الصف: 2-)
رسول اللہ ﷺ نے بھی قول و فعل کے تضاد کے انجام سے خبردار فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں:
"جو شخص کسی بات کی دعوت دیتا ہے مگر خود اس پر عمل نہیں کرتا، وہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس برائی سے رک جائے جس سے دوسروں کو روکتا ہے۔"(تفسیر درمنثور، جلد 1، صفحہ 177)
منافقانہ زندگی اور شخصیت پر اس کے اثرات:
-
اندرونی کشمکش: جب انسان کی زبان اور عمل میں تضاد ہو تو اس کے اندر مسلسل ایک ذہنی و روحانی اضطراب رہتا ہے۔ وہ خود اپنی نظروں میں گر جاتا ہے۔
-
کرداری کمزوری: قول و فعل کے تضاد سے انسان کی سچائی کمزور پڑتی ہے، اور وہ کردار کی پختگی سے محروم ہو جاتا ہے۔
-
اعتماد کا فقدان: دوسروں کی نظر میں اس کی باتوں کی وقعت ختم ہو جاتی ہے، اور اس کا معاشرتی اعتبار مجروح ہوتا ہے۔
-
روحانی تنزلی: ایسی زندگی اللہ کی ناراضی کا سبب بنتی ہے، اور انسان روحانی طور پر محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔
اس رویے کا سدباب کیسے ممکن ہے؟
-
خود احتسابی: انسان کو چاہیے کہ وہ خود سے سوال کرے: "کیا میں وہی ہوں جو کہتا ہوں؟" اور اپنی زندگی میں عمل اور بات میں مطابقت لائے۔
-
اخلاقی تربیت: تعلیمی و سماجی نظام میں سچائی، دیانت اور کردار سازی کو مرکزی مقام دیا جائے۔
-
سماجی اصلاح: منافقانہ رویوں کی نشان دہی کی جائے، مگر اصلاح کے جذبے کے ساتھ، نہ کہ محض تنقید کے لیے۔
قول و فعل کی ہم آہنگی انسان کو نہ صرف باوقار بناتی ہے بلکہ اس کے کردار میں صداقت، الفاظ میں تاثیر، اور معاشرے میں عزت پیدا کرتی ہے۔ ایک سچا انسان وہی ہوتا ہے جو جو کہے، اس پر عمل کرے — اور یہی سچائی ہر کامیاب معاشرے کی بنیاد ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں