اگر بھارت پاکستان کا پانی روک دے...!
جنوبی ایشیا کی سیاست میں پانی اب بارود کی طرح خطرناک ہو چکا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا، جسے دنیا کے کامیاب ترین آبی معاہدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر بھارت آج اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کا پانی روک لے، تو اس کے نتائج محض ایک علاقائی تنازع نہیں، بلکہ پاکستان کے وجود پر براہِ راست حملہ ہوں گے۔
سوچیے! پاکستان کی زراعت کا انحصار دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر ہے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی زمینیں اسی پانی سے زندہ ہیں۔ اگر بھارت ان دریاؤں پر بند باندھ کر یا پانی روک کر پاکستان کو خشک سالی میں دھکیل دے تو سب سے پہلے ہماری زرعی معیشت دھڑام سے نیچے گرے گی۔ گندم، چاول، کپاس اور گنا جیسی بنیادی فصلیں تباہ ہو جائیں گی، اور ملک کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔
صرف اتنا ہی نہیں، پانی کی بندش کا مطلب بجلی کی بندش بھی ہے۔ منگلا اور تربیلا جیسے ڈیم پانی کے بغیر بے جان ہو جائیں گے۔ بجلی کی پیداوار میں نمایاں کمی آئے گی، جس کا براہ راست اثر صنعت، تجارت اور روزگار پر پڑے گا۔
جب صنعتیں رکیں گی، جب کھیت سوکھیں گے، تو بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ناگزیر ہو گا۔
دوسری طرف، شہری علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی کمی ایک نئی انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ اسپتالوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا سیلاب آ جائے گا۔ بچے، بزرگ اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
اور یاد رکھیے، جب پیاس بڑھتی ہے تو احتجاج کی چنگاری شعلوں میں بدل جاتی ہے۔ پانی کی قلت پاکستان کے اندرونی امن کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں میں بدامنی پھیل سکتی ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کے سیاسی استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دے گی۔
بین الاقوامی سطح پر بھی معاملہ آسان نہ ہو گا۔ اگر بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، تو پاکستان عالمی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے، لیکن عدالتی کارروائی سست ہوتی ہے، جب کہ زمین پر لوگ پانی کے لیے تڑپ رہے ہوں گے۔
خطے میں جنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا، کیونکہ پاکستان پانی کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔
اصل سوال یہ ہے: کیا بھارت سمجھتا ہے کہ پانی کی بندش کا بوجھ صرف پاکستان پر پڑے گا؟
نہیں! پانی کی جنگ کی آگ پورے برصغیر کو جلا سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک سمجھداری سے کام لیں، اور انڈس واٹر ٹریٹی جیسے معاہدوں کی پاسداری کریں۔
کیونکہ پانی زندگی ہے — اور زندگی پر سیاست نہیں کی جا سکتی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں