مثال کے طور پر، 1977 میں عراق میں میری ملاقات ایک دلچسپ شخصیت سے ہوئی۔ وہ میرا کولیگ تھا، شام کے دارالحکومت دمشق کا رہنے والا ایک یہودی۔ دنیا کے سیاسی نقشے پر ایک ایسی شناخت، جو اکثر تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ مگر اس دن، وہ میری زندگی کا ایک باب بدل گیا۔
ہم دونوں بغداد کی ایک کانفرنس میں شریک تھے، اور ایک طویل دن کے اختتام پر کافی کے کپ کے ساتھ گفتگو چل نکلی۔ وہ نرم لہجے میں بات کرتا تھا، اور اُس دن اس کے لہجے میں ایک عجیب سی سنجیدگی تھی۔ اس نے کہا:
"تم جانتے ہو، عرب اسرائیل کا مقابلہ اس لیے نہیں کر سکتے کہ اسرائیلیوں کے اعمال اُن کی سو سالہ سوچ بچار سے کشید ہو کر نکلتے ہیں۔ وہ جو آج کرتے ہیں، اُس کی بنیاد اُن کے بزرگوں نے نسلوں پہلے سوچ رکھی تھی۔ ہم لمحے میں جیتے ہیں، وہ صدیوں میں سوچتے ہیں۔"
یہ بات سن کر میرے ذہن میں جیسے ایک بجلی سی کوندی۔ کیا واقعی ہماری قومیں فوری جذبات اور وقتی فیصلوں میں الجھ کر، طویل مدتی وژن سے محروم ہو گئی ہیں؟ کیا ہم نے بطور قوم اپنی سوچ کی جڑیں اتنی کمزور رکھ دی ہیں کہ ہر نیا فیصلہ پچھلے کو کاٹ دیتا ہے؟
یہ باتیں اس وقت محض الفاظ لگتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ سمجھ آتی ہیں کہ اُن کے پیچھے کتنی گہرائی ہے۔
اسی طرح کی ایک اور ملاقات مجھے یاد ہے، جب میں 1982 میں کویت میں ایک سیمینار میں شریک تھا۔ وہاں میری گفتگو ایک جاپانی ماہرِ تعلیم سے ہوئی۔ جب میں نے اس سے جاپانی تعلیمی نظام کی کامیابی کا راز پوچھا تو اُس نے ہنس کر کہا:
"ہم اپنے بچوں کو اگلے امتحان کے لیے نہیں، اگلی نسل کے لیے تیار کرتے ہیں۔"
یہ بھی ویسی ہی بات تھی، جو انسان کے اندر ہلچل پیدا کرتی ہے۔ ایسی باتیں عمر بھر انسان کا ساتھ نہیں چھوڑتیں، کیونکہ وہ سچائی کا آئینہ ہوتی ہیں۔ وہ ہمیں ہماری کوتاہیوں، کمزوریوں اور لاعلمی کا احساس دلاتی ہیں — اور ساتھ ہی بہتر بننے کی ترغیب بھی۔
زندگی کے ایسے لمحے، ایسے لوگ، اور ان کی ایسی باتیں — یہ بھلائے نہیں بھولتیں۔ وہ ہمیں لمحہ بھر کے لیے رُک کر سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ جیسے کوئی بادلوں کے پیچھے چھپی ہوئی روشنی اچانک چمک اُٹھے اور ساری تصویر واضح ہو جائے۔
شاید یہی اصل علم ہوتا ہے — وہ جو کتابوں سے نہیں، بلکہ تجربے سے، ملاقاتوں سے، اور سچ بولنے والوں کی زبان سے حاصل ہوتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں