علم کی دو بنیادی اقسام ہیں: ایک وہ علم جو محنت، جستجو اور کوشش سے حاصل کیا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جو اللہ کی خاص عطا کے طور پر دل کی آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔ پہلا علم ڈگریوں، اسناد اور رسمی تعلیم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، جب کہ دوسرا علم براہِ راست الہام و بصیرت کا نتیجہ ہوتا ہے، جو دل کی گہرائیوں میں اتر کر انسان کو حقیقت کا مشاہدہ کراتا ہے۔
ہم اللہ کے برگزیدہ رسولوں کے علم پر لب کشائی کی جسارت نہیں کرتے، کیونکہ وہ علم الہٰی کی براہ راست امانت ہے۔ تاہم، علی ابن ابی طالبؓ کے علم پر بات کرنا ممکن ہے، کیونکہ ان کے دہن سے نکلے ہوئے گوہر بار، حکمت سے بھرپور، اور عقل و شعور کو جھنجوڑنے والے اقوال آج بھی کتابوں میں جگمگا رہے ہیں، اور انسانیت
کو راہ دکھا رہے ہیں۔
حضرت علی نے ولی اللہ کی کچھ نشانیاں بتائی تھی ولی اللہ وہی ہوتا ہے جو علم و عمل کا جامع ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ جاہل اور لاعلم کو اپنا دوست نہیں بناتا۔ ولایت کے لیے حقیقت شناس اور باعمل ہونا شرط ہے۔ جب علم و عمل کا نور دل میں اتر جائے تو پھر اللہ کی عطا کا دروازہ کھلتا ہے۔
یہ بات عشروں برس پرانی ہے، جب ایک ہندوستانی نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بارے میں کہا: "ڈاکٹر اسرار سچے انسان ہیں۔" یہ جملہ میرے لیے باعثِ حیرت و تجسس بنا۔ ایک غیر مسلم کی زبان سے ایک قرآنی اسکالر کی سچائی کا اعتراف میرے دل میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو قریب سے جاننے کی جستجو پیدا کر گیا۔ میں ان کے حلقہ احباب سے قریب ہوا، ان کی تحریروں کا مطالعہ کیا، ان کی تقریریں سنیں۔
اگرچہ ان کے بعض سیاسی نظریات میری طبیعت سے ہم آہنگ نہ ہو سکے، تاہم میرے دل نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص بے غرض، مخلص اور سچائی کا پرستار ہے۔ اسی سوچ نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کی ہر بات کو تنقیدی نظر سے جانچوں، مگر سچائی کی روشنی ہمیشہ غالب رہی۔
ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد میں نے ان کے لیے دل کی گہرائیوں سے مغفرت کی دعا کی مگر یہ دعا اللہ کے حضور درجات کی بلندی میں بدل گئی
میں نے اپنی آنکھوں سے ان کی پیش گوئیوں کو حقیقت بنتے دیکھا تھا۔ وہ سچا انسان اب اپنے سچے رب کے حضور ہے۔ ان کی کئی پیش گوئیاں — خصوصاً یہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آئندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی اور میدان کارزار کشمیر ہوگا — آج قریب الوقوع محسوس ہوتی ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں