انسانی جذبات میں ایک جذبہ ایسا بھی ہے جو نظر نہیں آتا، مگر اندر ہی اندر روح کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو دوسروں کی خوشی، کامیابی، دولت یا حسن کو دیکھ کر دل میں چبھن کی صورت جاگتا ہے۔ یہ چبھن بظاہر خاموش ہوتی ہے، لیکن انسان کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے حسد کہا جاتا ہے — اور اسی لیے کہا گیا ہے:
انسانی تاریخ میں اگر جھانکا جائے تو حسد نے نہ صرف افراد کو بلکہ پوری قوموں کو برباد کیا ہے۔ رشتے ناتوں میں دراڑیں ڈالیں، اور دلوں میں زہر گھولا۔ قابیل کا ہابیل کو قتل کرنا انسانی تاریخ کا پہلا قتل تھا، اور اس کے پیچھے محرک حسد ہی تھا۔
دنیا کے ہر بڑے مذہب نے حسد کو بُرا اور تباہ کن قرار دیا ہے:
تورات میں کہا گیا:
"تو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کر... اور نہ کسی چیز کا جو اس کی ہو۔"
انجیل کہتی ہے:
"پرامن دل جسم کو زندگی دیتا ہے، لیکن حسد ہڈیوں کو گلادیتا ہے۔"
بھگوت گیتا میں ہے:
"جو سب کے لیے خیر خواہ ہو، حسد سے پاک ہو، وہی میرا سچا بھکت ہے۔"
قرآن پاک میں سورہ الفلق میں ارشاد ہوتا ہے:
"اور حسد کرنے والے کے شر سے، جب وہ حسد کرے، میں پناہ مانگتا ہوں۔"
احادیثِ مبارکہ
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔"
اہلِ علم کی نظر میں
حسد کے بارے میں مفکرین نے بھی کڑی تنقید کی ہے:
ارسطو نے کہا:
"کسی کی خوشی کو دیکھ کر جو درد دل میں ہو، وہی حسد ہے۔"
فرانسس بیکن کے مطابق:
"حسد سب سے بدترین جذبہ ہے۔"
حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
"حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔"
شیخ سعدیؒ نے کہا:
"حسد علم سے پیدا ہو تو علم وبال بن جاتا ہے۔"
ایک مسلسل پیچھا کرنے والا سایہ
حسد نہ دن دیکھتا ہے، نہ رات، نہ موسم، نہ موقع۔ یہ چھٹی نہیں کرتا — نہ جمعہ، نہ اتوار، نہ تعطیلات۔ ہر وقت، ہر لمحہ یہ انسان کا پیچھا کرتا ہے۔ اور اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ انسان کو جیتے جی مار دیتا ہے۔
بدبخت کو موت بھی نہیں آتی —
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں