حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ پر شرک کے الزامات کچھ مخالفین کی جانب سے لگائے گئے تھے، تاہم یہ الزامات نہ صرف بے بنیاد تھے بلکہ حضرت کی روحانی عظمت اور اسلامی تعلیمات کے خلاف تھے۔ اس وقت کے بعض متعصب علماء اور مخالفین جو تصوف اور صوفیاء کے طریقے کو نہیں سمجھتے تھے، نے حضرت داتا گنج بخشؒ پر ایسی باتیں کہی تھیں۔ تاہم، یہ الزامات حضرت داتا گنج بخشؒ کے علمی و روحانی مقام اور کردار کو متاثر نہیں کر سکے۔
1. تصوف پر اعتراضات
کچھ علماء نے اس وقت تصوف کے بعض رسومات پر اعتراض کیا تھا، جیسے کہ قبر پر حاضری، اولیاء اللہ کی زیارت، اور ان سے برکت کی توقع رکھنا۔ ان علماء کا خیال تھا کہ یہ چیزیں شرک کی جانب لے جا سکتی ہیں، حالانکہ حضرت داتا گنج بخشؒ نے ہمیشہ ان الزامات کو رد کیا اور تصوف کو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے پیش کیا۔ آپ کا ہمیشہ یہ موقف تھا کہ تصوف کا اصل مقصد اللہ کے قریب ہونا اور اس کے نور سے اپنے دل کو روشن کرنا ہے۔
2. حضرت کی کرامات
حضرت داتا گنج بخشؒ کی کرامات بھی مخالفین کے نشانے پر رہیں۔ ان کرامات کو بعض افراد نے مبالغہ یا شرک کا ذریعہ قرار دیا، حالانکہ ان کرامات کا مقصد لوگوں کو اللہ کی طرف راغب کرنا اور ان کی زندگیوں میں تبدیلی لانا تھا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے ہمیشہ ان کرامات کو اللہ کی مدد اور توفیق کا نتیجہ قرار دیا، اور خود کو اللہ کا معترف اور اس کے سوا کسی کو نہیں مانا۔
3. عوام کا عقیدہ
آپ کی مقبولیت کے باوجود بعض مخالفین نے عوام کے درمیان حضرت کی شخصیت اور کرامات کی طرف بڑھتے ہوئے عقیدے پر بھی اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ حضرت داتا گنج بخشؒ کو اللہ کے مقام پر سمجھنے لگے ہیں اور ان سے غیر ضروری عقیدت ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم، حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنی تعلیمات میں ہمیشہ اللہ کی عبادت اور توحید کو نمایاں کیا، اور کبھی بھی اپنی ذات کو کسی قسم کی عبادت یا پرستش کا لائق نہیں سمجھا۔
4. مسجد و خانقاہ کی زیارت پر اعتراضات
حضرت داتا گنج بخشؒ کی خانقاہ اور دربار کی زیارت بھی کچھ لوگوں کے لیے شرک کا باعث سمجھی جاتی تھی۔ تاہم، حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنی زندگی میں یہ واضح کیا کہ لوگوں کو آپ کی زیارت اور دعا کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ آپ کو اللہ کا شریک سمجھا جائے، بلکہ یہ اس لیے تھی کہ آپ کی دعا اور تعلق اللہ سے تھا، اور آپ کا مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا تھا۔
5. دینی و فقہی جوابات
حضرت داتا گنج بخشؒ نے ان تمام الزامات کا فکری اور دینی جوابات دیے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو یہ سمجھایا کہ تصوف اور اولیاء اللہ کا احترام صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا جانا چاہیے، اور ان کی زیارت اور ان سے برکت کا مقصد اللہ کی مدد کی طلب ہوتا ہے، نہ کہ کسی طور پر ان کے مقام کو اللہ کے برابر سمجھنا۔
نتیجہ
حضرت داتا گنج بخشؒ کی شخصیت، علم، اور کرامات نے ان الزامات کا بھرپور جواب دیا۔ آپ کا پورا پیغام اللہ کی وحدانیت اور اس کی رضا کے حصول کے لیے تھا، اور آپ کی زندگی میں کوئی بھی ایسا عمل نہیں تھا جو شرک کی طرف اشارہ کرتا ہو۔ آپ کی تصوف کی تعلیمات اور عمل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی عبادت اور اس کے قریب جانا تھا، اور آپ نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو اس ہی راستے کی طرف رہنمائی کی۔داتا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں