" ایک تاجر، ایک سبق، اور 100 دن کی رفاقت"
ان دنوں میں ایک امریکی سافٹ ویئر کی مارکیٹنگ کرتا تھا۔ میں اس سافٹ ویئر کو مختلف کاروباری مراکز میں متعارف کرواتا، دکانداروں کو قائل کرتا اور ان کے سسٹمز کو کمپیوٹرائز کرنے میں مدد دیتا۔ راولپنڈی کے مشہور تجارتی مراکز جیسے سٹی صدر روڈ، نرنکاری بازار اور راجہ بازار میں میرے متعدد گاہک تھے۔
انہی میں سے ایک تاجر ایسے تھے جن سے میری پیشہ ورانہ وابستگی وقت کے ساتھ ایک جذباتی اور سیکھنے کا رشتہ بن گئی۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، مگر ان کی کاروباری ذہانت، خلوص اور معاملہ فہمی غیر معمولی تھی۔ میں نے انہیں سافٹ ویئر خریدنے پر آمادہ کیا، اور ان کے سٹور کو مکمل طور پر کمپیوٹرائز کرنے کا آغاز کیا۔
کچھ ہفتے، کچھ مشاہدے:
شروع کے چند ہفتوں میں ہی مجھے احساس ہوا کہ میں صرف ایک دوکان کے ساتھ نہیں، بلکہ ایک سوچ کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ وہ تاجر نہ صرف کاروبار کے ماہر تھے بلکہ انسان شناس بھی تھے۔
ان کی دوکان تو شام کے اوقات میں بند ہو جاتی، مگر میں اکثر ان کے دو ملازمین کے ساتھ دیر تک سسٹم کی ترتیب، اسٹاک کی ڈیجیٹل فہرست اور بلنگ کے خودکار طریقہ کار پر کام کرتا رہتا۔
میں نے محسوس کیا کہ کچن میں چائے بناے والا ایک نوجوان بھی ہر روز آخر وقت تک وہیں رکا رہتا ہے۔ وہ خاموشی سے کام کے ماحول کو سیکھ رہا ہوتا، جیسے اسے بھی کچھ نیا حاصل کرنا ہو۔
معاہدے کی تکمیل اور الوداعی عشائیہ:
میرا ان سے معاہدہ 100 دن کا تھا۔ میں نے اپنے حصے کا کام مکمل کیا اور اجازت لینے پہنچا۔ مگر انھوں نے مجھے روک کر بتایا کہ میرے اعزاز میں عشائیے کا انتظام کیا گیا ہے۔
اس عشائیے میں ان کے ساتھ کام کرنے والے تمام 38 افراد شریک تھے۔ وہ ایک خوشگوار اور غیر رسمی محفل تھی۔ ہر چہرے پر محبت اور احترام جھلک رہا تھا۔
ایک سادہ شخص کی بڑی باتیں:
عشائیے کے اختتام پر وہ تاجر خود کھڑے ہوئے اور اپنے بارے میں بات کرنا شروع کی —
انہوں نے بتایا کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، تعلیم مکمل نہ کر سکے، مگر محنت کو کبھی کمزور نہ پڑنے دیا۔ "میں نے ہمیشہ کام کو اپنا سمجھ کر کیا" — انہوں نے کہا،
"جب میں نے ہوٹل میں برتن تب بھی خود کو اس ہوٹل کا حصہ سمجھا۔ جب میں نے کسی کے ساتھ مل کر پرچون چلائی، تب بھی ایسے کام کیا جیسے یہ میری دکان ہو۔ ہارڈوئر کی دوکان چلائی تو اپنی سمجھ کر چلائی۔"
"کام کو اپنا سمجھ کر کرنا انسان کو ذمہ دار بناتا ہے، اور جب انسان ذمہ دار ہو جاتا ہے تو کامیابی کی سیڑھیاں خود بخود اس کے قدموں میں بچھنے لگتی ہیں۔"
یہ جملہ میرے دل میں اتر گیا۔
میں تو انہیں ایک سافٹ ویئر سکھانے آیا تھا، مگر وہ مجھے زندگی کا سب سے قیمتی اصول سکھا گئے۔
چائے بناے والا لڑکا اج بھی اسی سٹور پر کام کر ہا ہے ۔ مگر اب وہ چائے نہیں بناتا بلکہ ستور کے اکاونٹ دیکھتا ہے ۔
یہ کیسے ممکن ہوا ۔ میں نے پوچھا ۔ اس کا جواب تھا"ہمارے حاجی صاحب نے پہلے دن ہی مجھے کہا تھا ۔ اس دوکان کو اپنا سمجھ کر کام کرنا" 6 ماہ تک میں سوچتا رہا اپنی دوکان سمجھ کر کام کروں گا تو بھی مجھے چائے ہی بنانا ہے ۔ مگر میں نے جب اس دوکان کو اپنا سمجھنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھ پر کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں ۔ میں نے ذمہ داریاں قبول کرنا شروع کیں تو میں حاجی صاحب کے ذینی طور پر قریب ہوتا چلا گیا ۔
تم نئے آنے والوں کو کیا ہدائت دیتے ہو " وہی جو حاجی صاحب نے مجھے پہلے دن دی تھٰی
"کام کو اپنا سمجھو، پھر دیکھو تم کتنے اہم ہو جاتے ہو"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں