ہفتہ، 26 اپریل، 2025

بی بی پاک دامن

 

بی بی پاکدامنؒ — لاہور کی روحانی اور تاریخی نشانی

لاہور، جو صدیوں سے علم، روحانیت اور محبت کا مرکز رہا ہے، اپنے دامن میں بے شمار اولیاء اللہ کی قبروں اور خانقاہوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ انہی بزرگ ہستیوں میں بی بی پاکدامنؒ کا نام نہایت عقیدت سے لیا جاتا ہے۔ ان کا مزار آج بھی محبت، عقیدت اور روحانی سکون کا سرچشمہ ہے۔


بی بی پاکدامنؒ کا تاریخی پس منظر

تاریخی روایات کے مطابق، بی بی پاکدامنؒ کا اصل نام بی بی رقیہؓ تھا۔ آپ اہلِ بیتؑ میں سے تھیں اور حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی اولاد یا قریبی رشتہ دار سمجھی جاتی ہیں۔ بعض روایات میں ان کے ساتھ دیگر خواتین کا بھی ذکر ملتا ہے، جن کی تعداد 35 سے 40 بتائی جاتی ہے۔
یہ نیک بیبیاں عباسی خلافت کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے وطن (عراق) سے ہجرت کر کے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آئیں۔ آخر کار لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔ یہاں انہوں نے نہایت سادگی، پردے اور عبادت میں زندگی گزاری۔

"پاکدامن" لقب کا پس منظر

آپ کی پاکیزگی، عبادت گزاری، اور دنیا سے بے رغبتی دیکھ کر اہلِ لاہور نے انہیں "بی بی پاکدامن" کا لقب دیا۔ "پاکدامن" کا مطلب ہے وہ عورت جس کا دامن ہر طرح کی آلائش سے پاک ہو۔

لاہور میں آمد اور قیام

کہا جاتا ہے کہ جب بی بی پاکدامنؒ اور ان کی ساتھی بیبیاں لاہور پہنچیں تو یہ شہر ایک غیر مسلم اکثریتی بستی تھا۔ وہ یہاں ایک نسبتاً پر سکون جگہ پر قیام پذیر ہوئیں۔ ان کی شبانہ روز عبادات، ذکر الٰہی، اور صبر و شکر کی کیفیت نے اردگرد کے ماحول پر گہرا اثر ڈالا۔

روایات کے مطابق، بی بی پاکدامنؒ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی زندگی کو گوشہ نشینی میں گزارتے ہوئے دینِ اسلام کے پیغام کو اپنی سیرت اور کردار سے عام کیا۔ انہوں نے کبھی ظاہری دعوت نہیں دی، بلکہ اخلاق و کردار سے لوگوں کے دل جیتے۔

شہادت یا وفات؟

کچھ پرانی روایات کے مطابق بی بی پاکدامنؒ اور ان کے ساتھیوں کو مقامی مخالفین نے شہید کر دیا تھا، جب کہ بعض دیگر روایات کے مطابق وہ طبعی موت مریں۔
بی بی پاکدامنؒ کی قبر کا مقام وہی ہے جہاں آج ان کا مشہور مزار واقع ہے۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ یہ جگہ صدیوں سے زیارت گاہ ہے اور اسے صوفیاء، درویشوں اور عام مسلمانوں کی عقیدت حاصل رہی ہے۔


مزار کی تعمیر و توسیع

بی بی پاکدامنؒ کے مزار کی موجودہ شکل کئی بار مرمت اور توسیع کے عمل سے گزری۔
مغل دور میں، اور بعد میں سکھ حکمرانوں کے زمانے میں بھی، مزار کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا۔ سکھ دور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس مقام کو خصوصی تحفظ فراہم کیا تھا، کیونکہ مقامی لوگ اسے روحانی مقام تسلیم کرتے تھے۔

مزار کے اندرونی حصے میں ایک قدیم برگد کا درخت بھی ہے جسے مقامی روایات میں بڑی روحانی اہمیت دی جاتی ہے۔ زائرین مزار پر چادریں چڑھاتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں اور نذر نیاز پیش کرتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں: