"تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی" — یہ جملہ جب بھی ذہن میں آتا ہے، تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نام بے اختیار ذہن پر دستک دیتا ہے: آغا محمد یحییٰ خان۔ یہ وہ جرنیل تھا جس نے ایک خودمختار قوم کی باگ ڈور سنبھالی اور بدترین سیاسی ناپختگی، ذاتی کمزوریوں اور اقتدار کے نشے میں ایک ایسا فیصلہ کیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان صرف ایک جغرافیائی سانحہ نہ تھا، بلکہ یہ ہماری اجتماعی سوچ، رویے اور حکمرانی کی ناکامی کا اعتراف بھی تھا۔ یحییٰ خان نے اقتدار جنرل ایوب خان سے 1969 میں سنبھالا۔ ابتدا میں یوں لگا جیسے وہ واقعی ایک راست باز جرنیل ہے، جو پاکستان کو جمہوری عمل کی طرف لے جائے گا۔ 1970 میں ملک کے پہلے عام انتخابات کروانا یقیناً ایک بڑا فیصلہ تھا۔ مگر اصل آزمائش اُس وقت شروع ہوئی جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کی، اور یحییٰ خان کے لیے اقتدار کی قربانی دینا مشکل ہو گیا۔ یحییٰ خان نے اقتدار عوامی نمائندوں کو سونپنے کے بجائے بندوق کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ آپریشن سرچ لائٹ کے نام پر ہزاروں بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ لاکھوں افراد نے اپنی جان، مال اور عزت گنوائی۔ بنگالیوں کے لیے یحییٰ خان کا نام آج بھی ظلم، جبر اور استبداد کی علامت ہے۔ وہ اسے ایک ایسا مغرور اور بے رحم حکمران مانتے ہیں، جس نے عوامی مینڈیٹ کو کچل کر پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ یہی نہیں، بلکہ حمود الرحمٰن کمیشن نے بھی یحییٰ خان کو اس قومی المیے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ رپورٹ کے مطابق وہ ایک اقتدار پرست، غیر سنجیدہ اور بدعنوان شخص تھا۔ کمیشن نے اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی سفارش کی، مگر افسوس! طاقتور حلقوں کے درمیان حساب کبھی پورا نہیں ہوتا۔ یحییٰ خان کی شخصیت کا تضاد یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر چین اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات قائم کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا، مگر اندرونِ ملک وہ ایک ناکام حکمران، بے سمت لیڈر اور اخلاقی دیوالیہ پن کی مثال ثابت ہوا۔ بنگلہ دیش میں آج بھی تعلیمی نصاب اور عوامی بیانیے میں یحییٰ خان کو ایک ظالم فاتح اور جمہوریت کش آمریت کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ انہیں یاد آتا ہے تو آنکھوں میں نفرت اور دل میں درد اُمڈ آتا ہے۔ یحییٰ خان کا انجام بھی عبرت ناک تھا — اقتدار سے محرومی کے بعد اپنے ہی گھر 61 ہارلے سٹریٹ میں نظر بندی، عوامی بے زاری، اور بالآخر خاموشی سے موت۔ نہ عزت، نہ معافی، نہ دفاع۔ یہ ایک جنرل کی کہانی ہے، جو سپاہی تو اچھا تھا، مگر حکمران بننے کی صلاحیت اس میں نہ تھی۔ آج جب ہم جمہوریت، آئین اور اداروں کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ ماضی کے ان کرداروں کا جائزہ لیں جن کی شخصی غلطیوں نے قومی زخموں کو جنم دیا۔ یحییٰ خان کی کہانی ہمارے لیے آئندہ کے لیے ایک عبرت ہے، شرط صرف یہ ہے کہ ہم سبق لینا چاہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں