آج کے فکری، سماجی اور مذہبی انتشار سے بھرپور ماحول میں یہ سوال اکثر ذہن میں گونجتا ہے: کیا ہم یقین پر ہیں یا تعصب پر؟ دونوں کی شکلیں بظاہر ایک سی لگتی ہیں، مگر ان کی بنیادیں، نتائج اور اثرات زمین آسمان کا فرق رکھتے ہیں۔ ایک روشنی کی طرف لے جاتا ہے، تو دوسرا اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔
یہ سوال صرف ایک فرد کا نہیں، پورے معاشرے کا ہے — بلکہ پوری انسانیت کا۔
یقین کیا ہے؟
یقین سچائی پر مبنی اعتماد ہے۔ یہ تب پیدا ہوتا ہے جب انسان دلیل، مشاہدہ، علم، تجربہ اور شعور کی بنیاد پر کسی بات کو مانتا ہے۔ یقین ایک متحرک عمل ہے؛ یہ جمود نہیں لاتا بلکہ سوچنے، سیکھنے اور بہتر کرنے کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔
قرآن میں حضرت ابراہیمؑ کی مثال موجود ہے، جنہوں نے بچپن سے ہی سوال کیے:
"یہ میرا رب نہیں ہو سکتا، یہ تو ڈوب جاتا ہے..."
یہ یقین عقل کے ذریعے پیدا ہوا، اور خدا کی تلاش کا سفر اُنہیں توحید کی حقیقت تک لے گیا۔ ان کا یقین تقلیدی نہیں، تحقیقی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں "ابو الانبیاء" کا درجہ ملا۔
تعصب کیا ہے؟
تعصب، یقین کا بگڑا ہوا روپ ہے۔ یہ بغیر تحقیق، دلیل یا کھلے ذہن کے کسی رائے یا عقیدے کو محض جذبات، روایات یا وراثت کی بنیاد پر قبول کرنا ہے۔ تعصب کی جڑیں اکثر خوف، انا، یا شناخت کے عدم تحفظ میں پیوست ہوتی ہیں۔
تعصب کی ایک کلاسیکی مثال مکہ کے کفار کی ہے، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی دعوت کو اس لیے رد کیا کہ وہ ان کے باپ دادا کے دین کے خلاف تھی۔
"ہم وہی کریں گے جو ہمارے بزرگ کرتے آئے ہیں..."
یہی تعصب تھا جس نے انہیں حق سے محروم کر دیا۔
یقین اور تعصب: معاشرتی اثرات
یقین معاشروں کو جوڑتا ہے، علم کو فروغ دیتا ہے، اور انسانی رویوں میں برداشت اور محبت پیدا کرتا ہے۔
دوسری طرف تعصب نفرت، تفرقہ، جمود اور بربادی لاتا ہے۔
آج بھی مذہبی انتہا پسندی، نسل پرستی، سیاسی فرقہ واریت — یہ سب تعصب کی ہی شکلیں ہیں۔ سوشل میڈیا نے جہاں معلومات کو عام کیا ہے، وہیں تعصبات کو بھی کئی گنا تیز کر دیا ہے۔
ایک رائے رکھنے والا دوسرے کی بات سننے کا روادار نہیں۔ لوگ دلیل سے زیادہ جذبات پر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ صورتحال معاشرتی زوال کی علامت ہے۔
یقین: ترقی کی بنیاد
جب یقین سچائی اور تحقیق پر ہو، تو وہ علم کی نئی راہیں کھولتا ہے۔
ابنِ سینا، الرازی، جابر بن حیان — ان سب کے کارنامے یقین کی طاقت سے ہی ممکن ہوئے۔
یقین انسان کو سکون دیتا ہے، دل کی گہرائیوں میں اُترتا ہے، اور اسے اندرونی مضبوطی فراہم کرتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جو صوفیا، اولیاء، اور محققین کی زندگیوں میں نظر آتی ہے۔
تعصب: خطرناک جمود
تعصب نہ صرف فرد کو بند ذہن کا حامل بناتا ہے، بلکہ پورے معاشرے کو ذہنی غلامی میں جکڑ دیتا ہے۔
آج اگر ہم سچ کو تسلیم کرنے کے بجائے "یہ ہمارے نظریے کے خلاف ہے" کہہ کر رد کر دیتے ہیں، تو ہم علم کی نہیں، صرف اپنی ضد کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔
کیا ہم یقین پر ہیں یا تعصب پر؟
یہ سوال ہمیں خود سے روز پوچھنا چاہیے:
-
کیا میں دلیل سنتا ہوں؟
-
کیا میں اپنی رائے بدلنے کو تیار ہوں اگر سچ سامنے آئے؟
-
کیا میں اختلاف کو برداشت کرتا ہوں؟
-
کیا میں صرف اس لیے کسی بات کو مانتا ہوں کہ میرے بزرگ یا گروہ نے کہا ہے؟
اگر ان سوالات کے جواب "ہاں" میں ہیں — تو خوش آئند بات ہے، ہم یقین پر ہیں۔
اگر "نہیں" — تو ہمیں رک کر، سوچ کر، اپنی سوچ پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔
یقین انسان کو آزاد کرتا ہے، اور تعصب اسے قید کر دیتا ہے۔
یقین دل کو کھولتا ہے، تعصب دل کو بند کر دیتا ہے۔
یقین سچائی کا دروازہ ہے، تعصب صرف انا کی دیوار۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں