منگل، 8 اپریل، 2025

خان، مرزا اور تماشائے تنقید

 

خان، مرزا اور تماشائے تنقید

تقابل کوئی جرم نہیں۔ یہ تو فہم و شعور کے دروازے کھولتا ہے، نقطہ نظر کی گہرائی بڑھاتا ہے۔ اور جب کوئی خود کو شہرت کے اسٹیج پر بٹھا لیتا ہے تو تماش بینوں کا یہ حق بنتا ہے کہ سوال کریں—کہ آخر وہ شہرت کس بنیاد پر ہے، اور کیا وہ سچ میں مستحق ہے؟

آج ہمارے سامنے دو نمایاں شخصیات ہیں—ایک، سیاست کے افق پر چمکتا ہوا نام، عمران خان۔ دوسرا، مذہبی بیانیے میں غیر روایتی آواز، انجینئر محمد علی مرزا۔

عمران خان خود کو خالص سیاستدان کہتے ہیں، مگر ان کی تقریروں میں مذہبی حوالوں کا ذائقہ اکثر شامل ہوتا ہے۔ دوسری طرف انجینئر مرزا صاحب خود کو محقق اور غیر مقلد مذہبی اسکالر کہتے ہیں، مگر ان کے بیانات میں سیاست کی چٹکی ضرور ہوتی ہے۔ دونوں کی زبان تیز، جملے کٹے دار۔ ایک کی تقریر جلسے کو جوش دلاتی ہے، دوسرا یوٹیوب پر فکری زلزلہ برپا کر دیتا ہے۔

خان صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ یو ٹرن لینے میں مہارت رکھتے ہیں—آج کچھ، کل کچھ اور۔ مرزا صاحب کے ہاں الٹ معاملہ ہے؛ ایک بار بات کہہ دی جائے تو برسوں یاد رکھتے ہیں، جواب دینا اُن کی فطرت ہے۔ دونوں نے اپنے مخالفین کو ’زیرو‘ قرار دیا، اور خود کو عقلِ کل سمجھا۔

خان صاحب نے سیاستدانوں کو بےنقاب کرنے کا بیڑا اٹھایا، مرزا صاحب نے فرقہ پرستی کے خلاف محاذ کھولا۔ مگر سوال یہ ہے: حل کہاں ہے؟ نہ سیاستدانوں کے پاس، نہ مولویوں کے پاس۔ صرف بیانیے ہیں، شور ہے، اور اختلاف کی چنگاریاں۔

حیرت تب ہوتی ہے جب ایک کو ’’یہودی ایجنٹ‘‘ قرار دیا جاتا ہے، اور دوسرے پر ’’رینڈ تھنک ٹینک‘‘ کا نمائندہ ہونے کا الزام لگتا ہے۔ خان صاحب پر الزام روایتی سیاستدانوں نے لگایا، مرزا صاحب پر فتوے علماء نے جاری کیے۔ پہلا سیاست کے اکھاڑے میں آزمودہ نام، دوسرا مذہبی حلقوں کا چیلنج کرنے والا۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ مرزا صاحب پر الزام لگانے والے خود امریکہ میں مقیم ہیں، چندہ اکٹھا کرتے ہیں اور ویڈیوز میں مرزا کو ’’رینڈ کا نمائندہ‘‘ کہتے ہیں۔ طنز و تمسخر کی زبان میں گفتگو کرتے ہیں، مگر دلیل اور ثبوت کہیں نہیں ملتا۔

عوام حیران ہیں کہ اتنے بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ بھی محض الزامات کی سطح پر ہی رہ جاتے ہیں۔ وہ جنہوں نے خان کو ’’یہودی ایجنٹ‘‘ کہا، کوئی ثبوت نہ دے سکے۔ وہ جو مرزا کو ’’رینڈ کا آدمی‘‘ کہتے ہیں، ان کے پاس بھی صرف گمان ہے، کوئی دلیل نہیں۔

یہ وہی زمانہ لگتا ہے جہاں بغداد کی گلیوں میں کھوپڑیوں سے مینار بنائے جاتے تھے، اور علم و دانش کے دعوے دار صرف اختلاف کی بنیاد پر کسی کو ’’گمراہ‘‘ یا ’’کافر‘‘ قرار دے دیتے تھے۔

آج کے دور میں غزہ جل رہا ہے، پچاس ہزار معصوم بچے شہید ہو چکے، نسل کشی جاری ہے۔ مگر ہمارے یہاں کا منظر یہ ہے کہ ایک دوسرے کو ایجنٹ، کافر، سازشی اور غدار ثابت کرنے کی دوڑ لگی ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ اور اگر بٹن کھولنے کی مہلت نہ ملے، تو گریبان پھاڑ کر ہی سہی—اپنے اندر ضرور جھانکیں۔

کوئی تبصرے نہیں: