پیر، 28 اپریل، 2025

پیشگوئی: ماضی، حال اور مستقبل


پیشگوئی ہمیشہ سے انسانی تجسس کا مرکز رہی ہے۔ قرآن، بائبل، اور دیگر الہامی کتب میں متعدد پیشگوئیاں وقتاً فوقتاً سچ ثابت ہوتی رہی ہیں۔ بنیادی طور پر پیشگوئی دو اقسام کی ہوتی ہے: الہامی، جو انبیاء یا اولیاء کو خدا کی طرف سے عطا ہوتی ہے؛ اور علمی یا سائنسی، جو مشاہدے اور اندازے پر مبنی ہوتی ہے۔

اسلامی تاریخ میں کئی بزرگوں نے الہامی انداز میں پیشگوئیاں کیں، جن میں حضرت نعمت اللہ ولیؒ کا نام نمایاں ہے۔ آپ کی فارسی نظم میں برصغیر میں انگریزوں کی آمد، مسلمانوں کی غلامی، پاکستان کا قیام، اور اسلام کے احیاء کی حیرت انگیز تفصیل موجود ہے۔ آپ لکھتے ہیں:

"آئیں گے مشرق سے شیر دل جوان،
دین کا ہوگا پھر روشن نشان"

آج فلسطین و کشمیر میں جو بیداری دکھائی دے رہی ہے، وہ انہی اشارات کی تعبیر معلوم ہوتی ہے۔

دوسری طرف القدس کے مسئلے پر دنیا کی مسیحی قیادت، خصوصاً ویٹیکن، اسرائیلی قبضے کی مخالف نظر آتی ہے۔ پوپ فرانسس نے یروشلم کو "تمام ادیان کے لیے مشترکہ مقدس شہر" قرار دیا۔ فلسطینی مسیحی راہب عطا اللہ حنا نے تو یہاں تک کہا:
"ہم مسجد اقصیٰ کے دفاع میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔"

اسلامی احادیث کے مطابق، آخری زمانے میں حضرت عیسیٰؑ کا نزول ہوگا، جو امام مہدیؑ کے ساتھ مل کر دجال اور اس کے پیروکاروں (جن میں اکثریت یہودی ہوگی) کے خلاف قیادت کریں گے۔ یہ پیشگوئی عیسائی صحیفوں میں بھی پائی جاتی ہے، جہاں حضرت مسیحؑ "آخری جنگ" میں بدی کو شکست دیں گے۔

دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے، اور ظلم و عدل کے نئے محاذ کھل رہے ہیں، ان میں یہ پیشگوئیاں ایک آئینہ ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم ان اشاروں کو پہچان کر تیاری کرتے ہیں یا تاریخ کا دھارا ہمیں خود بہا لے جاتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: