جمعہ، 10 اپریل، 2020

یاد تو کر



اپنے وقت کے بڑے مقرر اور مذہبی رہنماء  سپر جین  
(Charles H. Spurgeeon 1834-1892) 
کا ایک قول ہے کہ  جو لوگ جلدی سے وعدے کرلیتے ہیں  وہ عام طور پر ان وعدوں کو پورا کرنے میں بہت سست ہوتے ہیں۔  وعدہ ایک سنجیدہ عمل ہے ۔ ذمہ دار انسان وعدہ کرنے سے پہلے سوچے گا کہ میں وعدہ پورا کر بھی سکوں گا یا نہیں۔ یہی سبب ہے کہ عام طور پر وعدہ وہی کیا جاتا ہے جس کو پورا کرنے کی انسان میں صلاحیت موجود ہو۔البتہ کچھ لوگ وعدہ پورا کرنے کا مزاج ہی نہیں رکھتے، ان کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبان سے جو الفاظ نکال رہے ہیں ان کو پورا کرنے کی ان میں اہلیت ہی نہیں ہے ۔ ایسے لوگ فورآ وعدہ کر لیتے ہیں۔ وہ اس بات کا خیال ہی نہیں رکھتے کہ وہ یہ وعدہ کن الفاظ میں اور کن سے کر رہے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شاعر نے پانچویں دن کی اصطلاح دریافت کی تھی۔ شاعر کا اشارہ اپنے محبوب کی طرف تھا  جو  اردو ادب میں روز اول سے ہی بے وفا اور وعدہ شکن رہا ہے۔
 گلہ دراصل اس رہنماء سے ہے جس نے بھوکی بھیڑوں کو سبزے کے کھیت دکھائے تھے۔ جس نے بے گناہ جیلوں میں بند انسان نما مخلوق کو انصاف کی امید دلائی تھی۔ جس نے تقسیم در تقسیم معاشرے میں ایک پاکستان کی بات کی تھی۔ جس نے دولت کے نشے میں دہت وڈیروں کی غلامی سے نجات کے لیے میرٹ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ جس کی تقریر خدا کی عبادت کی نیت اور اس کی نصرت کی دعا سے شروع ہوتی تھی اور وہ عمر بن خطاب کے دور کے واقعات سنا کر ریاست مدینہ کا خواب دکھایا کرتا تھا۔
 بقول گلزار    عادتآ تم نے کر دیے وعدے   
تو ہم نے ان وعدوں پر اس لیے اعتبار کیا کہ ان وعدوں میں امید کی کرن دکھائی دیتی تھی۔اس قوم میں بچہ پید ہوتا ہے اور ذہنی بلوغ تک پہنچنے سے پہلے وہ دریافت کر لیتا ہے کہ اس کے والدین، اس کا خاندان، اس کا معاشرہ اس سے جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ مگر تم نے تو ان سے کہا تھا   وفا کریں گے نبھائیں گے بات مانیں گے
 اسی لیے    عادتآ ہم نے اعتبار کیا  
 کسی نے کہا تھا وعدے    قران اور حدیث نہیں ہوا کرتے   اب تم بھی کہتے ہو    کہیں وعدے بھی نبھانے کے لیے ہوتے ہیں    
 ہم تو ان پڑھ اور جاہل ہیں۔ ہم سلیقے سے نا بلد ہیں۔ہم ذہنی غلام ہیں۔ ہم بے ہنگم بھیڑ ہیں۔ ہم تو جھوٹے ہیں مگر اس ملک میں جہاں آپ نے اپنے بچوں کو اس لیے رکھا ہوا ہے کہ ان کی تربیت سچے لوگوں میں ہو۔ ان ہی میں سے ایک سچے نے دنیا  کے مشاہیر کی فہرست مرتب کی تھی۔ اور جس کو پہلے درجے کا صادق اور امین کہا تھا۔ ان ہی صادق و امین کا قول ہم تک پہنچا ہے کہ ہم جاہل اور ان پڑھ سہی مگر ان کے
    رب کے کنبے  کا حصہ ہیں۔
 عمران خان !!! 
تیری مجبوریاں درست مگر ۔۔  تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر

کوئی تبصرے نہیں: