منگل، 14 نومبر، 2017

فیصلہ اور وقت کا چناو




میں نے 1976 میں کالج کی تعلیم کے بعداپنی عملی زندگی کا آغاز مشرق وسطیٰ سے کیا تھا۔  سادہ، مہمان 
نواز عربوں کے معاشرہ اور انفرادی تبدیلوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، بہت سی تبدیلیاں مثبت ہیں اور مگر کچھ حقائق سدا بہار ہوتے ہیں ، جیسے صدیوں پرانا یہ قول  ْ دولت اپنا سر اونچا کیے بغیر نہیں رہتی ْ  دولت نے شاہراہوں پہ بھاگتی گاڑیوں کو جس قدر تیز رفتاری عطا کی ہے ، عوامی مشکلات کو حل کرنے والے ادارں کی کارکردگی کو اتنا ہی سست بھی کیا ہے، رویات سے جڑی انسان دوستی کو وطنیت کے افتخار نے پچھاڑ دیا ہے، دین سے جڑی انکساری کوآسائش نے مات دے دی ہوئی ہے۔ اور سوچ کا یہ انداز غالب ہے کہ  ْ زر سے سب کام ممکن ہیں ْ اور جب زر ہی کار گر ہے تو پھر کا ر (محنت )کیوں کیا جائے۔ ترقی کا معیار عمارت کا جاذب نظر اور بلند تر ہونا ہے ، فرد اور معاشرہ مغرب  سے متاثر ہو چکا ہے ، مشاورت امریکہ کی مقبول ہے ، اور بن سلیمان کی آنکھوں کوخیرہ کیا ہے متحدہ امارات میں جاری کاروباری سرگرمیوں ، تفریحی مراکز ، چکاچوند کر دینے والے نظاروں، اور اڑان بھرتے مسافر طیاروں کی کثرت نے۔ 


اگر امارات میں یہ ہو سکتا ہے تو سعودیہ میں کیوں نہیں ، عرب کلچر ، قبائلی روایات تو ایک جیسی ہی ہیں۔



سعودی شہزادے کے مددگار اماراتی حکمران ہیں، مشیر کمپنی بھی امارات والوں کی
Recomended 
ہے ۔

2015
  میں محسوس کیا گیا کہ ْ عمر رسیدہ ْ مذہبی عنصر ترقی کی راہ روکے ہوئے ہے ، ایسی رکاوٹوں کو برطرف ہی نہیں کیا گیا بلکہ نوجوان علماء کو سامنے لایا گیا ۔ جن کا بات کرنے کا انداز بدلا ہوا ہے 
بن سلیمان نے اپنے معاشرے کو دوبئی سے بھی آگے دیکھنے کا خواب دیکھا ہے۔
Vision 2030 & Dream city NEOM
اسی سوچ کے مظہر ہیں۔اور اس کا عربی میں نام روئیت سعودی 2030 ہے۔جون 2018 سے عورتو ں کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا اسی تبدیلی کا ابتدائی حصہ ہے۔


NOEM
کا شہر بسانے کا ارادہ ، جس میں سارا کام ہائی ٹیک کمپیوٹر اور روبوٹ کریں گے، خوش لباس مرد اور خوبصورت عورتیں کام کریں گے۔ تفریحی مراکز ایسے ہوں گے جہاں خواتین بکنی پہن کر گھوم سکیں گی، کاروبار کے لئے یہ شہر تین براعظموں کے تاجروں کا گڑھ ہو گا ، ہر قسم کی آسائش�آرام اور تفریح موجود ہو گئی۔ مستقبل کے شہر کی ایک خیالی ویڈیو سعودیہ سے باہر کسی دوسرے شہر میں بنائی گئی ہے اور اس ویڈیو کو بنانے والی مشیر کمپنی نے اس کو دکھانے کا انتظام اسی 
Ritz Carlton Riyadh

ہوٹل میں کیا گیا تھا، اس میں بن سلیمان کے وزیر خزانہ ابراہیم العساف، شہزادہ ترکی بن ناصر، شہزادہ فہد بن عبدللہ، شاہی محل کے نگران خالد التویجری ہی نہیں ، متعب بن عبداللہ اور دوسرے شہزداے بھی شامل تھے ، جن کو ۴ نومبر کی شام کو اسی ہوٹل میں گرفتار کر کے لایا گیا تھا، کچھ لوگ گاڑیوں میں بھر کر لائے گئے، ولید بن طلال اپنے سپر بوئنگ پر بدیس سے بن سلیمان کی ذاتی دعوت پر آئے تھے، متعب بن عبدللہ کو بتایا گیا تھا کہ اہم اجلاس میں شامل ہونا ہے وہ اپنے فارم ہاوس سے خود اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچے تھے، گرفتاریوں کا سارا عمل زبردست تیاری اور کمال رازداری سے کیا گیا ، اس کاروائی کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان کے اس وقت پانچ ہزار سے زیادہ افراد نہ صرف نظر یا قید ہیں بلکہ ان کے اکاونٹ بھی منجمد ہیں۔آل سعود کے علاوہ دوسرے کرپٹ لوگ جو حراست میں لیے گئے ہیں اور مسلسل لئے جارہے ہیں ان کی تعداد کبھی بھی معلوم نہ ہو پائے گی۔
چار
 نومبر کی تحریک میں بن سلیمان کو اپنے دوست کشنیر ( امریکی صدر کے یہودی داماد اور مشیر ) کی مشاورت اورخود امریکی صدر کی اشیر باد حاصل ہے۔ امریکی طاقت کی دنیا معترف ہے اور سعودی بھی دنیا ہی کے باسی ہیں۔

ایک معاشی ماہر نے بتایا کہ روس میں
2003
 ولادمیر پیوٹن نے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ کیا تو روس کے سب سے دولت مند شخص میخائیل خوردورکووسکی کو گرفتار کیا ، اور اس کوسائبیریا کے ایک لیبر کیمپ میں بجھوایا تو راتوں رات روس سے سارے سرمایہ کار بھاگ گئے۔اور ہوا یہ کہ پیوٹن اپنی ہی طاقت ور بیوروکریسی کے یرغمال بن گئے ۔ لیکن مغربی مبصرین یہ بھول جاتے ہیں کہ بادشاہت کا انجن تو چلتا ہی بیورو کریسی کی پٹڑی پر ہے۔ اور سعودیہ میں شاہی بیوروکریسی اس قدر طاقت ور ہے کہ وہ بادشاہت کے ادارے کا تو ہرسطح پر بھرم قائم رکھ سکتی ہے مگر بن سلیمان کی تبدیلی کے لئے وہ ساتھ دے پائے گی یا نہیں

بن سلیمان کے سعودی نوجوان کے سامنے آل سعود کی کرپشن کھول کر رکھ دینے کے بعد اپنی ذات کو ملک کے اندر مستحکم کر لیا ہے ، اس کرپشن کہانی سے جڑے دولت کے انبار کس کو کس کا دشمن بنائے گی یہ وقت بتائے گا کیونکہ دولت کی اوصاف میں یہ بھی ہے کہ وہ ْ دشمن پیدا کرتی ہے ْ ۔ اور ایسے دشمن بنانے میں یہی مشیر ، سعودیوں ہی کے خرچے پر مددگار ہوں گے۔

سعودی معاشرہ پرکرپشن ان کی دولت ہی کے سبب اثر انداز نہ ہو سکی مگر سعودی میں بہنے والا خون ْ ثارْ کا طلب گار رہے گا۔
Vision 2030 
کا پہلا پڑاو
2020
 ہے، اس سال معلوم ہو جائے گا کہ اس بس سے کتنی مطمن سواریاں اتری ہیں اور بس میں کتنے نئے مسافر چڑہانے کی گنجائش ہے۔
یہ بیان کر دینا بھی مناسب ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ داعی ہے کہ سعودی خواب ( روئت السعودی 2030) بیرونی دباو کا شاخسانہ ہے۔


ٓاصل بات یہ ہے کہ
بن سلیما ن کے دو اقدام اپنی ٹائمنگ کی وجہ سے گڈ مڈ ہو گئے ہیں ، کرپشن کے خلاف اقدامت کی خبریں اولیت پر آ گئی ہیں جب کہ ترقی کے خوابکی خوش کن خبریں دب گئی ہیں۔ 

کوئی تبصرے نہیں: