جمعہ، 17 نومبر، 2017

صبح نور



سعودی عرب کی اہمیت
سعودی عرب اپنے جغرافیائی وجود، دو متبرک شہروں کی موجودگی اور حکمران آل سعود خاندان کی سیاسی بصیرت اور مملکت کے اندر اور باہر اس کے اثر و رسوخ اور سعودی عوام کی دین سے محبت اور عملی جذبے ، مہمان نوازی کی روایات، جوانمردگی اور بہادری کی تاریخ اور اپنے مخصوص قبائلی ہیت کے باعث ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔جدید تاریخ میں خدا داد وسائل کی فراوانی نے اسے خطے اور دنیا میں ایک ممتاز کردار کا حامل بنایا ہے، ان سب سے بڑھ کر پوری دنیا کے مسلمان سرزمین سعودیہ کو ، حرمین شریفین سے مذہبی عقیدت کے باعث احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، مملکت کا جھنڈا وہ وحید علم ہے جو کبھی بھی سر نگون نہیں ہوتا۔
مگر ماضی قریب میں اس مقدس سرزمین کے باسیوں کی کرپشن کی کہانیاں جو مغربی میڈیا میں مزے لے لے کر بیان کی جاتی ہیں ان کہانیوں نے سعودیہ کے ماتھے کو داغدار کیا ہے۔




کرپشن
کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جس نے مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ہر ملک کی اپنی اپنی داستان ہے جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہے۔سعودی عرب میں کرپشن کی داستانوں کا طویل عرصہ سے بین الاقوامی میڈیا میں چرچا ہے مگر اس امیج کو درست کرنے کی جانب پہلی بار موثر قدم اٹھایا گیا ہے۔ سعودی انسداد کرپشن کمیٹی نے کرپشن کے منبع پر ہاتھ ڈال کر ایساجرات مندانہ قدم اٹھا یا ہے جس نے مملکت کے اندر اور باہر لوگوں کوحیرت انگیز فرحت سے ہمکنار کیا ہے۔ مملکت کے اندر اس تحریک کو نہ صرف خوش آمدید کہا گیا ہے بلکہ سعودی شہریوں میں یہ قدم حکومت اور خادم حرمین شریفین اور خاص طور پر شہزادہ ولی عہد کی مقبولیت کو نئی بلندیوں پر لے گیا ہے۔ سعودی عوام کا اپنی حکومت پر اعتماد ہی نہیں بڑہا بلکہ اس قدم سے معاشی نا ہمواری کی ٹوٹی پھوٹی راہ کی مرمت کی امید بندہی ہے۔ سعودی نوجوان بجا طور پر امید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں سعودی معاشرے اور حکومتی اداروں سے رشوت اور کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔
سعودی ولی عہد نے کرپشن کے مضبوط اور تناور شجر کی جڑہوں کو کاٹ کر رکھ دیا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کانٹے دار درخت خود نخود سوکھ کر مرجھا جائے گا۔
اپنے خاندان اور اپنی ہی حکومت کے کرپٹ افراد پر آہنی گرفت نے شہزادہ ولی عہد کو اپنے ملک کے نوجوانوں کو مثبت سوچ کی راہ دکھائی ہے تو بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو نیا حوصلہ میسر آیا ہے۔




سعودی ولی عہد کو جن چیلنج کا سامنا ہے اس میں ایک یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے اپنے حکومتی حریفوں پرہاتھ ڈال کر اپنے بادشاہ بننے کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ محض الزام ہی ہے کیونکہ ان کی ولی عہدی کا شاہی فرمان جاری ہونے کے بعد متعلقہ کمیٹی اس کی توثیق کر چکی ہوئی ہے۔ اور انھوں نے تیاری اور ثبوت کے ساتھ صرف کرپشن مین مبتلاء افراد پر ہی ہاتھ ڈالا ہے۔ اور اس میں ان کے اپنے وزیر، مشیر اور خاندان کے لوگ بھی سر فہرست ہیں۔ آنے والے چند ہفتوں میں ہی ناقدین کے منہ بند ہو جائیں گے کہ خادم حرمین شریفین نے عدلیہ میں نئے منصف ، جو قانونی ماہرین ہیں اور غیر جانبداری کی شہرت رکھتے ہیں شامل کر کے اور عدلیہ میں موجود ایماندار اور شفاف کردار کے منصفین کو ترقی دے کر اس بات کا اہتمام کر دیا ہے کہ کسی بے گناہ کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے۔ اس تحریک کے بالکل ابتدائی مرحلے پر ایسے سات افراد کو رہا کر دیاگیا جو اس پکڑ دھکڑ کا شکار ہو گئے تھے۔
جب مقدمات چلیں گئے اور تحویل میں لئے گئے افراد کی کرپشن کی کہانیاں سامنے آئیں گی تو عوام اور دنیا کا سعودی حکومت اور معاشرے پر یقین بڑہے گا۔



اخوت کی ٹھوس بنیاد
امت مسلمہ آپس میں اشتراک و اتحاد کے لئے مدت سے تگ و دود جاری رکھے ہوئے ہے ، علاقائی اتحادجیسے جی سی سی یا بین الاقوامی اتحاد جیسے اسلامی سربرائی کانفرنس در اصل اسی اتحا د اور اتفاق کے حصول کی کوشش ہے۔ جو وقت کی ضرورت اور اسلام کا بنیادی پیغام ہے۔ قوموں مین اتحاد و یگانگت کے کئی محر ک ہوتے ہیں جیسے یورپی یونین کے اتحاد کی بنیاد معاش بنی۔ کچھ اتحاد علاقائی وحدتوں میں معاشرتی اشتراک بنا ، کہیں مشترک دشمن نے ملکوں کو اتحا د پر مجبور کیا۔مگر دین میں مشترکہ اعتقادات پر مبنی اتحاد ہمیشہ ہی پائیدار ثابت ہوا ہے۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ کی ذات وحدانیت ، خاتم المرسلین کی ذات سے محبت، قرآن جیسی آفاقی کتاب کا موجود ہونا ، ایسی حقیقتیں ہیں جو اتحاد کی پائیدار بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ اسلام وہ مذہب ہے جس نے انسانیت کو ٹھوس اور دور رس تحفے دئے تھے ۔ دور نبوت میں رسول اللہ کا یہ فرمان کہ عورتوں کو بھی ترکے میں حصہ دو حالانکہ کہ اس وقت عورت کو زندہ درگور کر دینا زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ علاقی و خاندانی تفرقات کی جائے تقویٰ کی بنیاد پر معاشرے کی بنیاد رکھنا ۔ ایسے انقلاب آفریں اعلانات تھے جس نے معاشرے کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا۔ رواداری، محبت ، عفو و در گزر کے پیغام محمدی کو تو ہم عشروں سے پس پشت ڈالے ہوئے تھے ۔ اب خادم حرمین شریفین نے عید میلاد النبی پر عام تعطیل کا اعلان کر کے یہ راہ دکھائی ہے کہ ْ یا محمدا ْ کی بنیاد اگر ابوبکر کے دور میں نتیجہ خیز تھی تو موجودہ دور میں بھیْ حب النبیْ خیر ہی کا پیغام ثابت ہو گی۔تنقید، انا پرستی، اور مسلکی تفاخر ایسے امراض ہیں کہ جس جس معاشرے میں پھیلے اس معاشرے کو تباہ ہی کیا۔امید رکھنی چاہئے کہ حب النبی کے سایہ دار ، خوشبودار شجر سے اسلام کے باسیوں کو امن و عافیت کا سایہ نصیب ہو گا۔ خادم حرمین شریفین نے ۲۱ ربیع الاول کی اہمیت کو واضح کر کے خطے کے باسیوں کو محبت، دوستی کی راہ دکھائی ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں: