اتوار، 5 نومبر، 2017

سعودیہ ۔ اج اور آنے والا کل


اختلاف کا سلیقہ
1989
 کا واقعہ ہے ، رمضان کا آخری عشرہ تھا ، راقم اپنے دو پاکستانی ساتھیوں کے ساتھ عمرہ کے ارادے   سے محو سفر تھا،دوران سفر ایک مسجد میں نماز پڑہنے کے بعد میں نے تعجب سے اپنے ساتھی یوسف سے پوچھا کہ لوگ تزہیں شدہ مسجد میں نماز ادا کرنے کی بجائے مسجد کے باہر کیوں نماز ادا کرتے ہیں، یوسف گو پاکستانی تھا مگر اس کی ماں عرب تھی ، گھر میں عربی بولتے تھے اور تعلیم بھی اس نے سرکاری سکول میں عربی میں ہی حاصل کی تھی ، یوسف کا جواب تھا کہ ریت پر نماز ادا کرنا سنت ہے، اس جواب پر میں خاموش تو ہو گیا لیکن تشفی نہ ہوئی ، اگلے سال ایسے ہی سفر میں میراہم سفر ایک مصری دوست تھا، ہم نے ایک گاوں میں عصر کی نماز ریت پر سنت کے مطابق ادا کی اور روانگی کے لیے گاڑی میں بیٹھ کر اگلی منزل کے لئے روانہ ہوئے تو میں نے جو سوال پچھلے سال یوسف سے پوچھا تھا اس سے بھی پوچھا ، نوجوان مصری کویت یونیورسٹی کا طالب علم تھا، اس نے بتا یا ْ پچھلے سال میں عمرہ کرنے ایک ساتھی سعودی طالب علم کے ساتھ آیا تھا ، سعودی کا گاوں رستے میں پڑہتا تھا ، اس کے گاوں میں عشاء کی نماز ہم نے مسجد کے باہر ریت پر ادا کی رات اس کے گھر رہنے کا پروگرام تھا، میں نے رات کو اس سے پوچھا کہ گاوں کے لوگ سجی سجائی مسجد میں نماز ادا کرنے کی بجائے مسجد کے صحن میں ریت پر نماز کیوں ادا کرتے ہیں، اس کا جواب تھا مسجد میں موجود صفوں پر ہدیہ من وزارت الاوقاف بالریاض کی جو مہر لگی ہوئی ہے اس سے نماز کے دوران توجہ منتشرہوتی ہے ْ عرب معاشرے کی زبان کی خصوصیت ہے کہ وہ اختلاف کو بھی سلیقے سے بیان کرتے ہیں۔
اختلاف رائے، ہوا بھرے غبارے کی طرح ہوتا ہے ایک حد تک دباو کے بعد پھٹ جاتا ہے ، سعودیہ عرب کے شاہی خاندان میں پہلا غبارہ شاہ فیصل کے قتل کی صورت میں پھٹا تھا، آواز پوری دنیا میں سنی گئی تھی کہ پستول کی گولی کی تھی اور حجاز مقدس سے سنائی دی تھی، مسلمان پاکستان میں ہو یا بورکینا فسو میں حجاز میں اٹھنے والی صدا پر فوری متوجہ ہوتا ہے کہ وہ وہ ارض مقدس اس کی عقیدتوں کا محور ہے۔
اقتدار کی کشش
شاہی اقتدار کی تاریخ ، کسی بھی خطے میں ہو ، اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے، سعودیہ بھی زمین پر ہی واقع ہے، وہاں بھی شاہی خاندان کے اندر رقابت نئی بات نہیں ہے ، 
آل سعود
آل سعود کی ترکیب باقی خاندانوں سے منفرد ہے، خاندان کا بانی ایک زبردست سپاہی، ذہیں حکمران اور وقت کی چال دیکھ کر چلنے والا سیاستدان تھا۔ اس نے سعودی قبائلی معاشرے کو اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایسے شیر شکر 
کیا کہ ْ شیر اور بکری ْ ایک ہی گھاٹ سے اپنی پیاس بجھانے کے خوگر ہو گئے۔
قبائل کو متحد کر کے پیدائشی طور پر آزاد منش سعودیوں پر حکمرانی کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل کبھی بھی نہیں رہا مگر اس خاندان کے بانی نے یہ معجزہ بھی کر دکھایا ، کئی شادیاں اور کثیر اولاد اسی معجزہ کا ثمر تھا ۔ حالیہ حکمران ملک سلیمان شاہد اپنے بھائیوں میں آخری حکمران ہوں گے کہ انھوں نے اپنے صاحبزادے محمد کو مستقبل کا بادشاہ نامزد کر دیا ہوا ہے۔
محمد بن سلیمان 
یہ نوجوان شہزادہ پہلے وزیر دفاع مقرر ہوا ، سعودی حکمرانی میں وزارت دفاع، نیشنل گارڈز کی وزارت ور وزارت داخلہ بادشاہت کے ستون ہیں ، وزارت دفاع سعودی عرب کی مسلح افواج کو کنٹرول کرتی ہے ، جن کی قوت دو لاکھ افراد ہیں، یہ مسلح قوت سعودیہ کی حدود پر پھیلی ہوئی ہے ، اس فورس کے متوازی سعودی نیشنل گارڈز ہیں جن کی تعدا د ایک لاکھ ہے اور ان کی تعیناتی کا مقام دارلخلافہ اور دو متبرک شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں، اس فورس کے ساتھ پچیس سے تیس ہزار ایسے رضا کار بھی ہیں جو وردی نہیں پہنتے۔ یہ فورس در اصل بادشاہت کی ریڑھ کی ہڈی ہے ،اندرونی خلفشار کو کنٹرول کرنا اس کے فرائض میں شامل ہے ، مثال کے طور پر 1979 میں جب کچھ انقلابیوں نے مکہ مکرمہ کے حرم کی مسجد پر قبضہ کر لیا تھا اور قبضہ ختم کرانے میں اس فورس نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
بادشاہت کا ایک اور ستون وزارت داخلہ ہے جو بہت منظم اور قوی ادارہ ہے اور وزارتوں میں اس کے ہم پلہ کوئی دوسری وزارت نہیں ہے
اختیارات کا ارتکاز
شہزادہ محمد بن سلیمان کے بارے میں مبصرین کی رائے ہے کہ وہ راسخ الذہن حکمران ہیں، اپنی رائے کو منوانے کا ہنر جانتے ہیں اور تیزی سے پیش قدمی کرتے ہیں ، انھوں نے سعودی معاشرے میں دور رس تبدیلوں کی بنیاد رکھی ہے ۔مثال کے طور پر ان کا بیانیہ Vision 2030 ایک منفرد دستاویز ہے اورآنیوالے تیرہ سالوں میں سعودی معاشرہ تبدیل ہوتا ہوا نظر آئے گا، تیزی سے پیش قدمی کی جرات کا اظہار ان کے یمن کے ساتھ تنازع اورقطر کے گھیراو کے دوران ہو چکا ہے۔ حالیہ اقدامات کے دوران نیشنل گارڈ کی وزارت ان کے کنٹرول میں آ چکی ہے اور وزارت داخلہ پر بھی ان ہی کی سرپرستی کا ہاتھ ہے۔ یوں یہ شہزادہ اختیارات کے لحاظ سے اپنے وقت کا مضبوط ترین بادشاہ ہو سکتا ہے۔
میڈیا کا کردار 
پرنٹ میڈیا سعودیہ میں مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے، اور وہاں سے عام حالات میں مخالفت کی بدبو پیدا ہونے کا دور دور تک امکان نہیں ہے، الیکٹرونک میڈیا ایسا میزائل ہے جو کسی مقام سے کسی مقام کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے ، حساس مقام پر ، شیشوں کے محلات میں بیٹھے ، خاص طور پر امت مسلمہ کے حکمران اس میزائل سے مرعوب ہیں ۔مثال کے طور پر قطر کا الجزیرہ چینل۔
سوشل میڈیا کی اہمیت کا ادراک اس ملاقات سے بخوبی ہو جاتا ہے جو سعودیہ کے مستقبل کے بادشاہ نے فیس بک کے چیف ایگزیکٹو سے کی ہے۔
ٹوئیٹر کا کردار
Twitter میڈیا کا وہ پستول ہے جو امریکہ کے صدرسمیت تمام حکمرانوں کی جیب میں ہوتا ہے، ٹوئیٹر کی ملکیت میں ایک سعودی ولید بن طلال کا موٹا حصہ ہے ،اس کے علاوہ ولید بن طلال کئی ایسے الیکٹرانک چینلوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو خود سعودیہ اور دوسرے عرب ممالک میں مقبول ہیں۔ اس ہفتے جو سعودی بادشاہ نے ہفتہ کے دن انٹی کرپشن کمیٹی تشکیل دی ہے اس کے سربراہ خود شہزادہ محمد بن سلیمان ہیں ۔ اور اس کمیٹی کی تشکیل ہوتے ہی جن لوگوں کو زیر حراست لیا گیا ہے ان میں ولید بن طلال کے علاوہ ، کہا جاتا ہے ، نیشنل گارڈ کے سابقہ سربراہ بھی شامل ہیں، کچھ مذہبی رہنماوں پر چند ہفتے پہلے پابندی اور حراست میں لئے جانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔
ہمسائے
سعودیہ کا ایک دور کا ہمسایہ بحرین ہے، عوام پر ایران کا اثر رسوخ ہے اور حکمران خاندان کی حفاظت کے لیے سعودی نیشل گارڈ کا دستہ وہاں موجود ہے، عراق میں سعودیہ کا اثر و رسوخ ناپید ہو چکا ہے اور ایران کے زیر اثر ہی نہیں بلکہ اندرونی خانہ جنگی کے باعث سانس بھی مشکل سے لے رہا ہے ، یمن سعودیہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور کہا جاتا ہے کہ کمبل ریچھ ثابت ہو رہا ہے۔عرب دنیا میں مصر کسی کے لیے بھی قابل اعتبار نہیں ہے سوائے سپر طاقت کے۔ شام بچارہ خود لہو لہان ہے، لبنان سعودیہ کا معتمد ساتھی ہے کہ شاہی خاندان کے لبنانیوں کے اہم خاندانوں کے ساتھ رشتے داریاں جڑی ہوئی ہیں ۔ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ لبنان کے حکمران نے ریاض میں بیٹھ کر اپنا استعفیٰ لکھ بھیجا ہے۔
الولید بن طلال
2015 میں اخباروں میں یہ خبر چھپی تھی کہ طلال بن ولید نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے 32 بلین ڈالر خیراتی اداروں کو دان کرے گا ، ولید دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے، نیو یارک میں اس کے قیمتی ہوٹل ہیں ، فرنس میں بڑی سرمایہ کاری ہے، عرب دنیا میں دیکھا جانا والا نیوز کارپ اس کا ہے، سٹی گروپ میں اس کی موٹی سرمایہ کاری ہے، ساتھ ہی اس کے عالمی حکمرانوں سے بے تکلفانہ تعلقات ہیں ، سابقہ امریکہ صدر کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا ۔ موجودہ امریکی صدر کو اس نے انتخابات کے دوران مشورہ دیا تھا کہ اپ کبھی بھی الیکشن نہیں جیت سکو گے ۔ صدر ٹرمپ کے مشیر اور داماد کے سعودی مستقبل کے بادشاہ کے ساتھ ذاتی مراسم ہیں، اور موجودہ پکڑ دھکڑ سے قبل وہ صاحب سعودیہ ہ میں تھے۔ اور اس کا شمار ولید بن طلال کے مخالفین میں ہوتا ہے۔
نوجوانوں کا کردار
سعودی ولی عہد خود بھی نوجوان ہیں اور اس کے ملک کی دو کروڑ کی آبادی میں پچیس سال سے کم عمر نوجوانوں کی تعدا د ایک کروڑ ہے، بادشاہ معظم ملک سلیمان اس وقت اکاسی سال کے ہیں اور کام سے زیادہ ٓرام کرتے ہیں،اختیارات عملی طور پر ولی عہد ہی کے پاس ہیں۔
عرب معاشرے کی زبان کی خصوصیت ہے کہ وہ اختلاف کو بھی سلیقے سے بیان کرتے ہیں۔اختلاف رائے، ہوا بھرے غبارے کی طرح ہوتا ہے ایک حد تک دباو کے بعد پھٹ جاتا ہے۔مسلمان پاکستان میں ہو یا بورکینا فسو میں حجاز میں اٹھنے والی صدا پر فوری متوجہ ہوتا ہے کہ وہ وہ ارض مقدس اس کی عقیدتوں کا محور ہے۔
اس مضمون کو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسل ﷺ پر عقیدت کے اظہار پھول نچھاور کر کے ختم کرتا ہوں اور یاد ہانی کراتا ہوں کہ انھوں نے فقر کو پسند کیا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کی نصیحت۔

کوئی تبصرے نہیں: