خلیفہ ہارون رشید کے دور میں حکومت کے ایک افسربارے لوگوں کی شکایت پر جب خلیفہ نے اس کی صلاحیتوں کی تعریف کی تو عوام کی طرف سے کہا گیا کہ اگر یہ ایسے ہی قابل ہیں تو دوسرے علاقے کے لوگوں کا بھی حق ہے کہ وہ اس کی قابلیت سے مستفید ہوں۔ دور خلافت کے وقت سے ہی کچھ سرکاری افسران بشمول عدلیہ ہر دور میں پائے جاتے رہے جو اپنی کارکردگی کی بنا پر عوام میں معروف ہوئے۔ موجودہ دور میں یہ شرف ہمارے عدلیہ کے محترم جج کھوسہ صاحب کو حاصل ہے کہ وہ عوام کی توجہ کا مرکز ہیں شائد اس کا سبب ان کی جلد انصاف مہیا کرنے کی خواہش ہو۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب شوکت عزیزصدیقی صاحب جنھوں نے چند ہفتے ہوئے سوشل میڈیا سے جڑے ایک مقدمے کی سماعت کی تھی۔کے خلاف ایک ریفرنس جوڈیشنل کونسل میں دائر ہواہے اور اس کی سماعت جناب کھوسہ صاحب کے پاس ہے۔جناب شوکت صدیقی صاحب کا یہ مطالبہ اخبارات میں چھپ چکاہے کہ اس ریفرنس کی سماعت بند کمرے کی بجائے کھلی عدالت میں کی جائے اوریہ کہ اس ریفرنس کی سماعت کھوسہ صاحب کے علاوہ کوئی بھی دوسرا جج کرے۔
یہ امر باعث تعجب ہے کہ ریفرنس کے ایک فریق کے اعتراض کے باوجود یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اس کیس میں کھوسہ صاحب ہی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ہے ۔خلیفہ ہارون رشید کو تو عوام نے لا جواب کر دیا تھا مگر ہمارے ہاں عام طور پر ْ کمزور فریق ْ لاجواب ہوتا ہے کیونکہ طاقت جواب دہ نہیں ہوتی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں