تقسیم کی لکیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تقسیم کی لکیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعہ، 24 نومبر، 2017

تقسیم کی لکیر



اسلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک جنجویانہ اور غیر مفاہمانہ رویے کا حامل مذہب ہے ، یہ خاکہ غیر ممالک میں ہی نہیں بلکہ اسلامی ممالک کے اندر بھی نئی نسل میں راسخ ہو چکا ہے
اسلام ، انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کے باوجود ، مسلم اکثریت کے ممالک میں انسانی اقدار پر عمل نہ ہونے کے باعث مدافعتی رویے پر مجبور ہے۔ دین کے دکھائی دینے والے چہرے کو دوسروں کے لیے قابل قبول بنانا تعلیم یافتہ لوگوں کا کام ہوتا ہے۔
پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں تعلیم یافتہ طبقہ دو گروہوں مین منقسم ہے۔ عصری علوم کا پروفیسر،دینی مفتی کے علم منظق و فلسفہ کوعصر حاضر کی اورنج ٹرین کا پچھڑا ہوا مسافر گردانتا ہے ، جب کہ دینی اداروں میں اب بھی جدید معاشرے کی بناوٹ پر بحث کو وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے۔
اسلامی ممالک میں معاشرتی بناوٹ کے باعث، مسجد کا مائیک دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلباء اور اساتذہ کے ہاتھ میں ہونے کے سبب ان کی آواز بلند تر ہے جو مساجد کے قریبی گھروں ہی میں ہی نہیں بلکہ دور دراز تک لوگوں پر بصارتوں کے ذریعے اثر انداز ہوتی ہے
یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ عام آدمی کی بصارتوں تک صرف مذہبی طبقے کی آواز پہنچتی ہے اور جدید علوم کی آوازیں مخصوص تعلیمی اداروں اور چند بند مقامات میں کم لوگوں تک رسائی حا صل کر پاتی ہیں۔
عجیب بات ہے کہ فلسفہ دینی مدرسے میں پڑھا جائے تو دین کا حصہ اور کالج سے پڑھا جائے تو دین بیزار مضمون بن جاتا ہے۔اسلامیات میں اعلیٰ تعلیم کی سند سیال شریف سے ہو تو معاشرے کا رہنماء اوراسلامیات میں پی ایچ ڈی یونیورسٹی سے ہو تو مشکوک ۔
ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کو افہام و تفہیم سے مل بیٹھنا چائیے، اور معاشرے کی رہنمائی کا فرض نبھانا چاہئے ، اختلافات اور معاشرتی تقسیم ، تعلیم یافتہ افراد کی پیدا کردہ ہے۔اوراس تقسیم کی لکیر کو مٹانا بھی تعلیم یافتہ لوگوں کا ہی کام ہے۔ 

بابا بھلے شاہ کی ایک نظم کا بند اہل علم کی نذر
عِلموں پئے قِضیّے ھور
اکھّاں والے انّھے کور
پھڑدے سادھ ، تے چھڈن چور
دو ھیں جہانِیں ، ھون خوار
عِلموں بس کریں او یار