ہفتہ، 28 جون، 2025

آذربائیجان




آذربائیجان

دنیا کے سیاسی نقشے پر آذربائیجان ایک نسبتاً چھوٹا مگر تزویراتی اہمیت کا حامل ملک ہے، جو قفقاز کے پہاڑوں، بحیرہ کیسپین، ایران، روس، ترکی اور آرمینیا کے درمیان واقع ہے۔ اس جغرافیائی محلِ وقوع نے اسے کئی طاقتوں کے درمیان پل اور میدانِ عمل بنا دیا ہے۔
اگرچہ آذربائیجان ایک مسلم اکثریتی شیعہ ملک ہے، لیکن اس کے اسرائیل سے تعلقات حیرت انگیز طور پر گہرے، پائیدار اور اسٹریٹجک ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آذربائیجان ایران کے ساتھ نرم رویہ اور مذہبی وابستگی بھی رکھتا ہے۔ یہ دوہری پالیسی — ایک طرف اسرائیل کا قریبی دفاعی اتحادی، اور دوسری طرف ایران کا مذہبی و تہذیبی بھائی — خود ایک سیاسی معمّا بن چکی ہے۔
اس مضمون میں ہم اس گہرے تضاد، اس کے اسباب اور اس کے پس پردہ چلنے والے نظریات، مفادات اور تاریخی عوامل پر روشنی ڈالیں گے۔
آذربائیجان اسرائیل کا بھارت کے بعد دوسرا بڑا اسلحہ خریدار ملک ہے۔
دو ہزار سولہ سے دو ہزار تیئیس کے درمیان آذربائیجان نے اسرائیل سے دس ارب ڈالر سے زائد مالیت کے ہتھیار، ڈرونز، سائبر ٹیکنالوجی اور میزائل سسٹم خریدے۔
اسرائیلی ہتھیاروں کی بدولت آذربائیجان نے دو ہزار بیس کی نگورنو-کاراباخ جنگ میں آرمینیا کو شکست دی۔
ایران کی سرحد پر واقع آذربائیجان اسرائیل کے لیے ایک انٹیلیجنس ہب ہے۔ اسرائیلی خفیہ ادارے "موساد" یہاں سے ایران پر نظر رکھتے ہیں۔
کچھ رپورٹس کے مطابق اسرائیل کو آذربائیجان کی سرزمین سے ایران کے خلاف ڈرونز اور خفیہ آپریشن کی سہولت بھی ملی ہے۔
آذربائیجان اسرائیل کو خام تیل کا ایک اہم سپلائر ہے، جو اسرائیل کی مجموعی تیل ضرورت کا چالیس فیصد تک پورا کرتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان زرعی، طبی اور تکنیکی تعاون بھی موجود ہے۔
یہ بات بظاہر متضاد محسوس ہوتی ہے کہ ایک شیعہ اکثریتی ملک اسرائیل جیسے یہودی ریاست کے ساتھ اتنا قریبی تعاون رکھے۔ مگر آذربائیجان کی حکومت مذہبی کے بجائے سیکولر اور قوم پرست پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
حکومت کی پالیسی واضح طور پر ایرانی طرز کے مذہبی نظام سے فاصلہ اختیار کرتی ہے۔
آذری قیادت "اسلامی انقلاب" کے پھیلاؤ کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتی ہے، خاص طور پر ایران کی مذہبی اثر انگیزی کو۔
عوام مذہب سے جڑے ہوئے ہیں، مگر ریاست کا مزاج عملی مفاد پرستانہ ہے۔
ایران میں دو کروڑ سے تین کروڑ آذری نژاد لوگ بستے ہیں، جو ایرانی فوج، معیشت اور سیاست میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
ایران کے مذہبی مراکز، جیسے قم و مشہد، آذری عوام کی عقیدت کا مرکز ہیں۔
عاشورا، عزاداری، امام علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کی محبت دونوں قوموں میں مشترک ہے۔
ایران، آذربائیجان کو "صہیونی اتحادی" اور ترکی کے ایجنڈے کا حصہ سمجھتا ہے۔
آذربائیجان، ایران پر الزام لگاتا ہے کہ وہ آرمینیا کا خفیہ حمایتی ہے۔
ایرانی رہنماؤں نے آذربائیجان کو کئی بار "غیراسلامی" پالیسیوں پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایران اگرچہ آذربائیجان کی اسرائیل نواز پالیسی سے ناخوش ہے، مگر اس پر کھل کر حملہ نہیں کرتا کیونکہ ایران کے اندر آذری برادری بغاوت کا شکار ہو سکتی ہے۔
مذہبی جذبات کو سیاسی تنازعات سے الگ رکھنے کی مجبوری ہے۔
تو پھر آذربائیجان ایران کی حمایت کیوں کرتا ہے؟
یہ ایک انتہائی نازک توازن ہے۔ آذربائیجان ایران کے خلاف واضح جنگی پوزیشن نہیں لیتا تاکہ اپنی مذہبی شناخت اور اندرونی استحکام کو بچا سکے۔
شیعہ دنیا میں تنہا ہونے سے بچنے کے لیے ایران سے نرم لہجہ اختیار کرتا ہے۔
اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس میں ایران کے خلاف ووٹ سے گریز کرتا ہے تاکہ مسلمان دنیا میں امیج متوازن رہے۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو فوجی و معاشی دائرہ میں محدود رکھتا ہے تاکہ مذہبی مخالفت نہ ابھرے۔
کیا مذہب مالی مفادات پر حاوی ہو سکتا ہے؟
یہ سوال ہر ملک کے اپنے قومی مفاد، عوامی مزاج، اور ریاستی نظریے پر منحصر ہوتا ہے۔
اگر حکومت سیکولر ہو اور ریاست کا مفاد مذہب سے بالا ہو تو مالی مفادات مقدم ٹھہرتے ہیں۔
اگر ریاست مذہبی نظریات پر قائم ہو، جیسے ایران، تو وہاں مذہب معاشی تعلقات کو روک بھی دیتا ہے (مثال کے طور پر ایران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، چاہے اسے نقصان ہی کیوں نہ ہو)۔
آذربائیجان کی مثال بتاتی ہے کہ مذہب عوام کا جذبہ ہو سکتا ہے، مگر فیصلہ کن قوت ریاستی مفاد ہوتا ہے۔
آذربائیجان اور اسرائیل کا رشتہ ایک خالص اسٹریٹجک شراکت داری ہے، جو دفاع، معیشت اور انٹیلیجنس پر قائم ہے۔ دوسری طرف، ایران کے ساتھ آذربائیجان کا رشتہ مذہبی، تاریخی اور لسانی بنیادوں پر نرم اور محتاط ہے۔
یہ تضاد ہمیں بتاتا ہے کہ آج کی دنیا میں دوستی کا پیمانہ نہ عقیدہ ہے، نہ دشمنی کا معیار مذہب — بلکہ اصل مرکز 'قومی مفاد' ہے۔
اسرائیل آذربائیجان کو ایک اتحادی سمجھتا ہے، مگر آذربائیجان ایران کو ایک مذہبی بھائی کے طور پر ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ یہی توازن اس کی سفارتی حکمت عملی کی جھلک ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: