ہفتہ، 14 جون، 2025

جان اور جہان کی کہانی

ہم ایک ایسی مڈل کلاس تہذیب کے پروردہ ہیں جہاں جسم کی نہیں، صرف نمبر، نوکری اور نیک نامی کی پرورش ہوتی ہے۔ صحت، آرام، متوازن خوراک یا نیند جیسے تصورات کبھی زندگی کا حصہ نہیں رہے۔

ناشتہ چھوڑ دینا مصروفیت کہلاتا ہے، ورزش فالتو کام، اور آرام سستی کی علامت۔ تھکن ہو تو بام لگا کر لیٹنے کا مشورہ ملتا ہے، اور کمزوری ہو تو چھٹی کر لینے کا۔ ڈاکٹر صرف تب یاد آتا ہے جب جسم چیخنے لگتا ہے۔

ہمیں چہل قدمی بوجھ لگتی ہے، لیکن مرغ کڑاہی کھانے میلوں کا سفر آسان۔ کولڈ ڈرنک پر سینکڑوں روپے خرچ کرنا معمول، مگر جم کی فیس دینا فضول خرچی۔

ہم تھکن کو فخر، بدہضمی کو روایت اور نیند کی کمی کو جوانی سمجھ بیٹھے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب لاپروائی نہیں، خود سے بےوفائی ہے۔

وقت رہتے اگر صحت پر توجہ نہ دی، تو ایک دن سب کچھ سلامت رہ جائے گا — بس جسم نہیں۔

جان ہے تو جہان ہے۔

کوئی تبصرے نہیں: