ہفتہ، 21 جون، 2025

اردن اور اسرائیل — دوستی اور نفرت ساتھ ساتھ



اردن اور اسرائیل — دوستی اور نفرت ساتھ ساتھ

اتحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

اردن ایک منفرد عرب ریاست ہے۔ اس کی تاریخ خلافت عثمانیہ کے خاتمے، عرب بغاوت، اور برطانیہ کی مہربانیوں سے شروع ہوتی ہے۔ حکومت ہاشمی خاندان کے پاس ہے، جو رسول اللہ ﷺ کی نسل سے تعلق رکھتا ہے، مگر حرمین کا اختیار ان کے مخالف آلِ سعود کے پاس ہے۔ اردن ایک طرف امریکہ کی مالی چھتری تلے سانس لیتا ہے، دوسری طرف اسرائیل سے امن معاہدہ رکھتا ہے، اور تیسری طرف فلسطینی عوام کے ساتھ دلی ہمدردی بھی جتاتا ہے۔ یہ سب کچھ بیک وقت ممکن کیسے ہے؟ اس کا جواب صرف "مشرقِ وسطیٰ کی سیاست" میں پوشیدہ ہے، جو اصولوں سے نہیں، مجبوریوں سے لکھی جاتی ہے۔
ہاشمیوں کی بادشاہت: برطانوی تحفہ
اردن کا قیام 1921 میں ہوا جب برطانیہ نے شریف حسین کے بیٹے عبداللہ اول کو "امیرِ شرقِ اردن" مقرر کیا۔ شریف حسین وہی شخص تھا جس نے عربوں کو خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت پر اکسایا، اس وعدے پر کہ برطانیہ انہیں آزاد عرب ریاست دے گا۔ مگر برطانیہ نے اس وعدے کو پورا نہ کیا اور صرف ایک چھوٹا سا صحرا — موجودہ اردن — انعام میں دیا۔ باقی عرب سرزمین، فرانس اور برطانیہ نے آپس میں بانٹ لی۔ یوں ہاشمی قیادت خلافت تو نہ پا سکی، مگر ایک چھوٹی بادشاہت ضرور مل گئی۔
آلِ سعود اور ہاشمی کشمکش
     انیس سو چوبیس 
 میں آلِ سعود نے شریف حسین کو مکہ سے بے دخل کیا، اور یوں حرمین پر ہاشمیوں کی تاریخی نگرانی ختم ہو گئی۔ یہ واقعہ آج تک ہاشمی خاندان کی سیاسی اور روحانی نفسیات پر اثرانداز ہے۔ آج اگرچہ اردن اور سعودی عرب بظاہر اتحادی ہیں، مگر دلوں میں تاریخی چبھن باقی ہے۔ اردن اپنے آپ کو مسجد اقصیٰ کا محافظ سمجھتا ہے، اور آل سعود کو خادمینِ حرمین کا دعویدار۔ دونوں کی مذہبی حیثیت کا ٹکراؤ ہمیشہ ایک خاموش کشمکش کی صورت میں موجود ہے۔
امریکہ کی چھتری
اردن کی معیشت، دفاع اور سفارت کاری کی ڈوریں امریکہ سے بندھی ہوئی ہیں۔ ہر سال اردن کو امریکہ سے اربوں ڈالرز کی امداد ملتی ہے۔ امریکہ اردن کو ایک "معتدل، پرو-ویسٹ، اور قابلِ اعتماد" عرب اتحادی سمجھتا ہے، جو اسرائیل کے خلاف کسی سخت رویے میں شریک نہیں ہوتا۔ اردن میں کئی امریکی فوجی اڈے موجود ہیں جو شام، عراق اور ایران پر نظر رکھنے کے کام آتے ہیں۔
اسرائیل سے امن، مگر کس قیمت پر؟
این سو چورانوے
 میں اردن نے اسرائیل سے امن معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے بدلے اردن کو پانی، تجارتی مواقع، اور امریکی حمایت ملی۔ اسرائیل نے اردن کو مسجد اقصیٰ کے اسلامی انتظام کا غیر رسمی حق بھی تسلیم کیا۔ مگر یہ معاہدہ اردنی عوام کو کبھی ہضم نہ ہوا۔ اردن کی اکثریت فلسطینی نژاد ہے، جن کے دل میں اسرائیل کے لیے شدید نفرت ہے۔ ہر بار جب اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتی ہے، اردن کی سڑکوں پر عوام سُلگ اٹھتی ہے، مگر حکومت صرف "اظہارِ تشویش" تک محدود رہتی ہے۔
گیس اور پانی: خاموش مجبوریاں
اردن اسرائیل سے پانی خریدتا ہے۔ ساتھ ہی 2016 میں اردن نے اسرائیل سے گیس خریدنے کا اربوں ڈالر کا معاہدہ بھی کیا، جس پر عوام نے شدید احتجاج کیا۔ مگر اردن جیسی خشک اور مالی لحاظ سے کمزور ریاست کے لیے ان معاہدوں سے نکلنا آسان نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں معاشی بقا اور اخلاقی موقف آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔
اسرائیل کی سخت گیر حکومت اور اردن کا اضطراب
نیتن یاہو کی موجودہ شدت پسند حکومت نے مسجد اقصیٰ پر مسلسل دھاوے بولے، بستیوں کی تعمیر تیز کی، اور فلسطینیوں پر ظلم بڑھایا۔ اردن نے ہر موقع پر سخت بیانات دیے، مگر کوئی عملی قدم نہ اٹھایا۔ وجہ واضح ہے — امن معاہدہ ختم کرنے کا مطلب امریکی امداد کا خاتمہ، اندرونی استحکام کا خطرہ، اور اسرائیل سے براہِ راست محاذ آرائی۔
عوام اور حکومت: دو الگ دنیائیں
اردنی حکومت اسرائیل سے امن چاہتی ہے، مگر عوام کے لیے اسرائیل ایک ظالم، غاصب اور مذہب دشمن ریاست ہے۔ اردن کا یہ تضاد — جہاں حکومت اور عوام دو الگ بیانیوں پر زندہ ہیں — مشرق وسطیٰ کی سیاست کی سب سے تلخ حقیقت ہے۔

اردن کا اسرائیل سے رشتہ دو جہتوں پر مبنی ہے — مجبوری اور مفاد۔ حکومت کے لیے امن، پانی، گیس، اور امریکی حمایت ضروری ہے۔ عوام کے لیے فلسطین، مسجد اقصیٰ، اور اخلاقی انصاف اہم ہے۔ ہاشمی بادشاہت کو اپنے وجود کے لیے مغرب سے جڑنا پڑا، مگر اپنی عوام سے جڑے رہنے کے لیے فلسطینیوں کے درد کو بھی محسوس کرنا پڑتا ہے۔ یوں اردن ایک ایسی کشتی میں سوار ہے جو دونوں کناروں کو چھونے کی کوشش کر رہی ہے، مگر کسی ایک کنارے پر اترنے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔
یہ وہ ریاست ہے جہاں سیاست مجبوری ہے، مذہب شناخت ہے، اور امن معاہدہ ایک ناپسندیدہ ضرورت۔


کوئی تبصرے نہیں: