ہفتہ، 28 جون، 2025

تقابل

 






تقابل

تاریخ گواہ ہے کہ بعض شخصیات اپنی تنقید، تلخی اور تیزطراری کی بدولت منظرِ عام پر آتی ہیں۔  ان کا ہنر یہی ہے کہ وہ لفظوں کو نیزے کی طرح برتتے ہیں، جملوں کو تیر کی مانند چھوڑتے ہیں، اور طنز کو ایسی تلوار میں ڈھال دیتے ہیں جس کا زخم مدتوں تازہ رہتا ہے۔

ایسی ہی دو شخصیات کا تقابل سامنے آتا ہے—ایک وہ جو سیاست کے نام پر جیل میں بند ہے، دوسرا جو مزہب کی چمکتی تلوار سونت کر روایات کے خلاف نعرہ زن ہے ۔ دونوں ہی تنقید کر کے مشہور ہوئے۔ ایک نے کسی کو نہ بخشا، اور دوسرے نے کسی کو نہ چھوڑا۔

وہ خود پسند تھا، یہ بھی اپنی ذات کا اسیر ہے۔ وہ زبان کا دھنی تھا، فنِ تقریر کا ماہر، الفاظ کا جادوگر۔ یہ بھی خطابت میں کسی سے پیچھے نہیں، مگر دونوں کی زبان میں شیرینی کی جگہ کڑواہٹ ہے۔ نہ وہ مروّت کا قائل تھا، نہ یہ لحاظ برتنے کا عادی ہے۔

وہ پگڑیاں اچھالتا تھا، یہ روایات کو روندتا  ہے۔ اس کی زبان تیز تھی، اس کی بھی تلخ ہے۔ وہ باہر نکلتا تو اپنے جانثاروں کی معیت میں، نعرے بلند کرتا، ہجوم کو گرما دیتا۔ یہ البتہ مصلحت کی چادر اوڑھے، ایک فاصلے سے بولتا ہے، مگر وار اس کا بھی کم نہیں ہوتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں وہ سیاست دان ہوتے ہوئے مذہب کی چاشنی شامل کرتا تھا، وہیں یہ مذہب کی نمائندگی کرتے ہوئے سیاست کا تڑکا لگانا ضروری سمجھتا ہے۔ ایک نے مذہب کو سیاست میں برتا، دوسرے نے سیاست کو مذہب میں گوندھا۔ فرق صرف زاویے کا ہے، 

دونوں ہی خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔ وہ دانا کہلاتا تھا، یہ دانا بن بیٹھا ہے۔ مگر ایک فرق نمایاں ہے: وہ بات کر کے بھول جاتا، یہ بات کر کے یاد رکھتا ہے۔ وہ دل کا صاف تھا، چوٹ لگاتا اور آگے بڑھ جاتا؛ یہ دل میں گرہ باندھتا ہے، اور موقع پا کر گرہ کھول کر دکھاتا ہے۔

وہ نئی نسل کا  سوشل میڈیا پر ہیرو تھا، یہ بھی نوجوانوں کے دل کی دھڑکن ہے۔ وہ  اونٹ کی طرح کینہ  پرور تھا،یہ لومڑی کی طرح مکار 


کوئی تبصرے نہیں: