ہفتہ، 21 جون، 2025

اسرائیل اور مصر — امن کا معاہدہ یا مجبوری کا سودا؟






عنوان: اسرائیل اور مصر — امن کا معاہدہ یا مجبوری کا سودا؟
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

مصر، جو فراعنہ کی سرزمین بھی ہے، اسلام کا قلعہ بھی اور عرب دنیا کی عسکری قوت بھی، مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ہمیشہ مرکزیت رکھتا رہا ہے۔ مگر اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات عرب دنیا میں سب سے پہلے "امن" پر منتج ہوئے — ایک ایسا امن جو کاغذ پر لکھا گیا، مگر دلوں میں کبھی اُترا نہیں۔
اسرائیل اور مصر کی کہانی صرف دو ریاستوں کی سفارتی تاریخ نہیں، بلکہ یہ عرب قومی جذبات، فلسطینی کاز، امریکی اثر، اور عوامی نفرت کے درمیان پھنسی ہوئی ایک ایسی داستان ہے جسے سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ کے کئی دریچوں میں جھانکنا ہوگا۔
 مصر کی تاریخ: عظمت، نوآبادیات اور قوم پرستی
 قدیم عظمت
مصر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ہے۔ فراعنہ، اہرام، نیل، اور علم و حکمت کی تاریخ اسے منفرد بناتی ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد مصر نے خلافتوں اور سلطنتوں کا دور دیکھا، یہاں تک کہ عثمانی خلافت کے زیراثر آ گیا۔
برطانوی قبضہ اور آزادی
1882
 میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا، اور 1922
 میں جزوی آزادی ملی۔ مگر اصل خودمختاری
 1952
 میں "فری آفیسرز موومنٹ" کے بعد حاصل ہوئی، جب بادشاہ فاروق کو معزول کر کے صدر جمال عبدالناصر نے حکومت سنبھالی۔ ناصر عرب قوم پرستی اور اسرائیل مخالفت کا سب سے بڑا علمبردار بنا۔
 اسرائیل کے ساتھ جنگیں: 
عرب خون، شکست اور امن
1948
 میں مصر نے عرب اتحاد کے تحت اسرائیل کے خلاف جنگ لڑی، مگر کامیابی نہ ملی۔
1956
 میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مل کر نہر سویز پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، جسے ناصر نے عوامی جذبات سے شکست دی۔
1967
 کی "شش روزہ جنگ" میں اسرائیل نے مصر سے جزیرہ نما سینا چھین لیا — ایک ایسی شکست جو ناصر کی زندگی پر بوجھ بن گئی۔
1973
 کی  جنگ میں مصر نے شام کے ساتھ مل کر اسرائیل سے اپنا غصب شدہ علاقہ واگزار کرانے کی کوشش کی، کچھ کامیابی ملی، مگر مکمل فتح حاصل نہ ہو سکی۔
. انور السادات اور امن معاہدہ
صدر انور السادات نے
 1978
 میں امریکہ کے شہر کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگن اور امریکی صدر جمی کارٹر کے ساتھ "کیمپ ڈیوڈ معاہدہ" پر دستخط کیے۔
1979
 میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر کے عرب دنیا کی پہلی مسلم ریاست ہونے کا اعزاز حاصل کیا — اور شدید تنقید کا سامنا کیا۔
  تعلقات بحال مگر فاصلے باقی
مصر اور اسرائیل کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ دونوں ملکوں کے سفارت خانے فعال ہیں، وزرائے خارجہ ملاقاتیں کرتے ہیں، انٹیلیجنس افسران تعاون کرتے ہیں، اور فوجی سطح پر بھی رابطے ہوتے ہیں، خصوصاً غزہ کی سرحد پر۔
 انٹیلیجنس شراکت داری
مصر اور اسرائیل، غزہ میں حماس کے خلاف خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
مصر سینا میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں اسرائیلی انٹیلیجنس کا سہارا لیتا ہے۔
 امریکی اثر
امریکہ، مصر کو ہر سال 1.3 ارب ڈالرز کی فوجی امداد دیتا ہے، جس کی شرط ہے کہ مصر اسرائیل کے ساتھ امن رکھے۔
امریکہ مصر کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ کے لیے سب سے اہم خارجی طاقت ہے، اور وہ اسرائیل سے دشمنی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔
 مصری عوام کا احساس 
عام مصری، اسرائیل کو ایک غاصب اور ظالم ریاست سمجھتے ہیں۔
غزہ کے محاصرے میں مصر کا کردار عوام کو تکلیف دیتا ہے — کیونکہ رفح بارڈر اکثر بند رکھا جاتا ہے، اور فلسطینیوں کو امداد یا علاج کے لیے مصر داخلے پرسختیاں ہوتی ہیں۔
 انور سادات کا قتل اور اس کے اثرات
سادات کو 1981 میں انہی کی فوج کے ایک رکن نے قتل کیا — اسرائیل سے امن معاہدے پر ناراضی اس کی بڑی وجہ تھی۔
آج بھی سادات کو بعض حلقے "قومی خائن" اور بعض "دور اندیش قائد" مانتے ہیں، مگر اختلاف قائم ہے۔
 عوامی سطح پر بائیکاٹ
مصر میں اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔
فنکار، ادیب، اور دانشور اسرائیل سے کسی بھی قسم کے ثقافتی یا تجارتی تعلقات کے مخالف ہیں۔
 مفادات کی سیاست
مصر کی فوج، جو ملکی اقتدار کی اصل وارث ہے، اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتی۔
صدر السیسی کا طرزِ حکمرانی سیکیورٹی، اسٹیبلشمنٹ اور معیشت پر مبنی ہے، اور ان تینوں کو اسرائیل سے تعلق میں فائدہ ہے، نقصان نہیں۔سادگی سے کہا جا سکتا ہے: "امن معاہدہ زندہ ہے، مگر امن مردہ ہے۔"
  مجبوری کا امن
مصر اور اسرائیل کے تعلقات ایک ایسے معاہدے پر قائم ہیں جو دنیا کے سامنے امن کی مثال ہے، مگر عوامی دلوں میں شکست اور غصے کی یاد بھی ہے۔ حکومت کو امن، استحکام اور امریکی امداد کی فکر ہے، اور عوام کو فلسطینی خون، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، اور اسرائیلی جبر کا غصہ۔
مصر نے اسرائیل کو تسلیم تو کر لیا، مگر دلوں نے کبھی معاف نہیں کیا۔
یہی وہ تضاد ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا خاصہ ہے —  امن معاہدے زندہ ہوتے ہیں، مگر امن کی روح مر چکی ہوتی ہے۔


کوئی تبصرے نہیں: