منگل، 24 جون، 2025

طلم کی گلیمرائیزیشن




دنیا میں مظلومیت کو کیمرے کی آنکھ سے خوبصورت دکھانے کا فن آج کی سب سے بڑی منافقت بن چکا ہے، اور اگر اس کی سب سے تکلیف دہ مثال تلاش کی جائے تو وہ فلسطین ہے۔ غزہ کی گلیوں میں بکھری لاشیں، ملبے تلے دبی مائیں، چیختے بلکتے بچے اور بمباری میں اجڑتے گھر — یہ سب کچھ اب عالمی میڈیا کے لیے محض فوٹیج کا مواد ہے۔ خون میں لت پت جسموں کو خبری شہ سرخی بنایا جاتا ہے، بچوں کی چیخیں بریکنگ نیوز میں سجائی جاتی ہیں، اور شہداء کی جنازہ گاہیں لائیو کوریج کا حصہ بن جاتی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ فلسطین میں ہونے والا ظلم اور بربادی اب عالمی ضمیر کے لیے صرف ایک تماشا ہے۔ اصل سوالات، اصل مجرم اور اصل حل کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت ہر روز غزہ کی گلیوں میں موت بانٹ رہی ہے، مگر دنیا صرف کیمروں کے زاویے تبدیل کر کے تصویریں نشر کر رہی ہے۔ عالمی تنظیمیں محض اجلاس بلاتی ہیں، قراردادیں پاس ہوتی ہیں، سیاسی رہنما بیانات دیتے ہیں، مگر زمین پر نہ بمباری رُکتی ہے، نہ مظلومیت کم ہوتی ہے، اور نہ فلسطینیوں کو انصاف ملتا ہے۔

غزہ کا ہر دن، ہر رات قیامت بن چکی ہے۔ اسپتال تباہ، اسکول ملبے کا ڈھیر، بازار کھنڈر اور بستیاں قبرستان بن گئی ہیں۔ بجلی بند، پانی ناپید، دوائیاں ختم اور خوراک تک رسائی محدود — مگر دنیا ان سب کو "دل چُھونے والی تصاویر" کہہ کر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔

فلسطینی بچے جن کی عمریں کھیلنے کی تھیں، اب وہ یا تو لاشوں میں شامل ہیں، یا خوف اور بھوک کے سائے میں زندہ ہیں۔ ماں باپ کی آنکھیں اپنے ہی بچوں کے جنازے اٹھاتے ہوئے پتھر کی ہو چکی ہیں۔ مگر عالمی میڈیا اور طاقتور ممالک کے لیے یہ سب محض جذباتی خبریں ہیں، جنہیں دکھا کر ریٹنگ بڑھائی جاتی ہے اور پھر اگلے دن نئی خبر کی تلاش میں سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔

ظلم، بربادی اور انسانی المیے کی یہ گلیمرائزیشن درحقیقت دنیا کے ضمیر کا جنازہ ہے۔ فلسطینیوں کی مظلومیت کو اگر صرف تصاویر، ویڈیوز اور جذباتی خبروں تک محدود رکھا گیا، تو یہ زخم کبھی نہیں بھر سکیں گے۔ جب تک دنیا، خصوصاً مسلم دنیا، مظلوم کی مدد محض بیانات سے نہیں، عملی میدان میں نہیں کرے گی، غزہ کی گلیاں خون میں نہاتی رہیں گی اور فلسطینی بچے اپنی معصوم آنکھوں سے دنیا کی منافقت دیکھتے رہیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں: