اسلام آباد کے پمز اسپتال کے مردہ خانے میں پڑی ایک لاش، آج مری سے لے کر مظفرآباد تک ایک غیر معمولی تنازعے کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ یہ لاش ہے سائیں لیاقت نامی ایک مجذوب کی، جو برسوں تک مظفرآباد کی سڑکوں پر "پتیلا باندھ کر" گھومتا رہا، کبھی خاموش، کبھی کچھ بڑبڑاتے ہوئے۔ وہ زندہ تھا تو شاید کسی کے لیے کچھ معنی نہ رکھتا ہو، مگر آج وہ مر چکا ہے تو دو برادریاں اس کے جنازے پر قابض ہونے کو تیار بیٹھی ہیں۔
مری کی عباسی برادری دعویٰ کرتی ہے کہ سائیں لیاقت ان کا گمشدہ فرد ہے، جو 30 سال پہلے گھر سے نکلا تھا۔ دوسری جانب، مظفرآباد کے کچھ لوگ سائیں کو اپنا "فقیر" مانتے ہیں، اس کے چچا اور بھتیجے بن کر پمز پہنچتے ہیں، اور یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ سائیں کے لیے وہ پہلے ہی مزار کے مقام کا تعین کر چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایک مجذوب فقیر کی میت پر ایسا ہنگامہ کیوں؟ کیا یہ جھگڑا خونی رشتے کا ہے؟ نہیں۔ کیا یہ عقیدت کی جنگ ہے؟ شاید۔ لیکن اصل وجہ ایک ہی ہے: دولت۔
سائیں لیاقت کی لاش اب "روحانی برانڈ" بن چکی ہے، ایک ایسا برانڈ جو آنے والے دنوں میں مزار، چندہ، دکانوں کے کرائے، نذریں، اور مذہبی رسومات کی شکل میں لاکھوں روپے کما سکتا ہے۔ دونوں فریقین یہ بخوبی جانتے ہیں، اسی لیے سائیں کا جنازہ اب روحانیت سے زیادہ تجارتی کشمکش کا شکار ہے۔
پاکستان میں درباروں اور مزاروں سے جڑی معیشت کا حجم کروڑوں میں ہے۔ صرف چند مثالیں لیں:
داتا دربار لاہور کی سالانہ آمدنی تقریباً پانچ سو کروڑ روپے تک پہنچتی ہے۔
سیہون شریف کا مزار، لعل شہباز قلندر، ہر ماہ کروڑوں روپے کی نذریں سمیٹتا ہے۔
کراچی کا عبداللہ شاہ غازی مزار، پاکپتن کے بابا فرید، اور اسلام آباد کا بری امام — سبھی مزار سالانہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔
یہ دربار عقیدت کا مرکز ضرور ہیں، لیکن ان کے اردگرد ایک باقاعدہ معاشی نظام پنپ رہا ہے۔ مجاوروں سے لے کر نذر لینے والوں تک، ہوٹل مالکان سے لے کر عقیدت مندوں کی نیتوں پر کمائی کرنے والوں تک، سب اس نظام کا حصہ ہیں۔
سائیں لیاقت کا متوقع مزار بھی اسی ماڈل کے تحت کام کرے گا۔ نذریں، لنگر، زمینوں کی خرید و فروخت، دوکانوں کے کرائے، مذہبی تقریبات — سب کچھ ممکنہ ذرائع آمدن ہیں۔ یہ وہی "سونے کی کان" ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے اب دونوں برادریاں میدان میں ہیں۔
لیکن شاید ہم نے یہ بھلا دیا ہے کہ سائیں لیاقت نے اپنی زندگی درویشی، بےنیازی اور خاموشی میں گزاری۔ جس نے دنیا کی چمک دمک کو لات مار کر سڑک کو بستر بنایا، کیا اس کے بعد ہم اس کی قبر سے نوٹ برآمد کرنا چاہتے ہیں؟ کیا روحانیت کا مطلب یہی رہ گیا ہے کہ کسی فقیر کی قبر کو دکان بنا دیا جائے؟
سوال صرف سائیں لیاقت کا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں عقیدت، احترام اور روحانیت کے نام پر ہونے والی تمام سرگرمیاں واقعی مقدس ہیں؟ یا یہ صرف ایک نیا کاروباری ماڈل ہے، جسے عوام کی سادہ دلی اور روحانی وابستگی کے کندھوں پر سوار کر کے چلا جا رہا ہے؟
سائیں لیاقت کی لاش آج کسی قبر کا انتظار نہیں کر رہی، وہ ہمیں ایک آئینہ دکھا رہی ہے۔ اور اس آئینے میں جو عکس نظر آ رہا ہے، وہ روحانیت نہیں، بلکہ روحانیت فروشی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں