جنگ کا منافع
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ
جب اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھتی ہے، تو دنیا کی نظریں بے اختیار امریکہ پر جم جاتی ہیں۔ ہر طرف ایک ہی سوال گردش کرتا ہے: کیا امریکہ اس جنگ میں براہِ راست کود پڑے گا؟ اور اگر ہاں، تو کیا یہ جنگ امریکہ کے لیے کسی بھی قسم کا اقتصادی فائدہ لے کر آئے گی؟
ظاہر ہے، جنگوں میں کچھ صنعتوں کو عارضی فائدے ضرور حاصل ہوتے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ جیسی فوجی طاقت رکھنے والے ملک میں، دفاعی صنعت سب سے پہلے منافع سمیٹتی ہے۔ دفاعی ٹھیکے، ہتھیاروں کی فروخت، اور اتحادی ممالک کو جنگی سازوسامان کی ترسیل — ان تمام سرگرمیوں سے
Raytheon، Lockheed Martin، اور General Dynamics
جیسے ادارے اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ اسرائیل، سعودی عرب، اور خلیجی ریاستیں امریکی ہتھیاروں کی سب سے بڑی خریدار ہیں، اور جنگ کی صورت میں ان کی مانگ کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔
اسی طرح توانائی کے شعبے کو بھی فوری فائدہ ہوتا ہے۔ ایران پر حملے یا پابندیاں اس کے تیل کی سپلائی کو متاثر کرتی ہیں، جس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ ایسے میں امریکی تیل اور گیس کمپنیاں، خاص طور پر شیل انڈسٹری، یورپ اور ایشیا کو زیادہ قیمت پر تیل بیچ کر خوب منافع کماتی ہیں۔ عالمی بحران میں سرمایہ دار محفوظ پناہ گاہ تلاش کرتے ہیں — اور عموماً وہ امریکی ڈالر اور اسٹاک مارکیٹ ہوتی ہے۔ یوں وال اسٹریٹ کو بھی وقتی فائدہ ملتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ فائدہ عوام تک بھی پہنچتا ہے؟
جنگ میں دفاعی صنعت تو امیر ہو جاتی ہے، لیکن عام امریکی کو مہنگائی، بے یقینی اور بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب تیل کی قیمت بڑھتی ہے، تو ٹرانسپورٹ مہنگی ہو جاتی ہے، خوراک کی قیمتیں بڑھتی ہیں، اور صنعتوں پر دباؤ آتا ہے۔ نتیجہ؟ مہنگائی، بے روزگاری، اور معیشت پر بوجھ۔
امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا — کیا اس سے عام امریکی کو کوئی معاشی فائدہ ہوا؟ نہیں، بلکہ اسے 8 ٹریلین ڈالر کا خرچ، ہزاروں جانیں، اور ایک غیر مستحکم مشرقِ وسطیٰ ملا۔
امریکہ کی فوجی مہمات کبھی اقتصادی بحالی کا ذریعہ نہیں رہیں۔ جنگی اخراجات صحت، تعلیم، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں سرمایہ کاری معاشرے کے ہر فرد کو فائدہ دیتی ہے — لیکن جنگ اس سرمایہ کو تباہ کر دیتی ہے۔
آج اگر امریکہ اسرائیل کے کہنے پر ایران سے جنگ چھیڑتا ہے، تو شاید چند کمپنیوں کے اسٹاک اوپر چلے جائیں، مگر امریکی شہریوں کو اس کا نقصان ہی ہوگا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ، مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اڈوں پر حملے، دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف جذبات میں اضافہ — یہ وہ سچ ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
بدقسمتی سے جنگ اب نفع کا کاروبار بن چکی ہے — مگر صرف چند کے لیے۔ اور جو قومیں اپنے مستقبل کو چند کارپوریشنوں کے منافع کے لیے گروی رکھ دیتی ہیں، وہ بالآخر تاریخ میں قیمت ادا کرتی ہیں۔
جنگ کا نعرہ لگانے والوں سے پوچھنا چاہیے:
کیا اس منافع کی قیمت انسانی جانوں، عالمی امن، اور معاشی تباہی سے ادا کی جا سکتی ہے؟
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں