عنوان: قاہرہ سے امن کی کوشش — ایک مشترکہ مؤقف کی فتح
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ
مشترکہ مفادات اور عالمی امن کے تقاضے کب ایک ساتھ یکجا ہوتے ہیں؟ شاذ و نادر۔ مگر جون 2025 میں دنیا نے ایک ایسی مثال دیکھی، جہاں خطے کی سیاست، تاریخی تلخیاں اور باہمی اختلافات کو پیچھے چھوڑ کر 21 ممالک نے ایک زبان ہو کر جنگ کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ آواز قاہرہ سے اٹھی، اور اس کے معمار تھے مصر کے وزیر خارجہ، سمیح شکری۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی، فضائی حملوں اور جوابی میزائل حملوں نے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ ایسے میں جب اقوام عالم خاموش تماشائی بنی ہوئی تھیں، مصر نے سفارت کاری کا علم بلند کیا اور عرب، اسلامی اور افریقی دنیا کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔
قاہرہ میں ہونے والی سفارتی ملاقاتوں کے بعد، سمیح شکری کی قیادت میں ایک متوازن، اصولی اور بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ مشترکہ قرارداد تیار کی گئی جس پر درج ذیل 21 ممالک نے دستخط کیے:
مصر
سعودی عرب
ترکی
قطر
اردن
متحدہ عرب امارات
پاکستان
بحرین
الجزائر
موریطانیہ
لیبیا
عراق
کویت
عمان
سوڈان
صومالیہ
جبوتی
کوموروس
برونائی
چاڈ
گیمبیا
یہ قرارداد نہ صرف اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ سب سے اہم بات، اس میں فوری جنگ بندی، علاقائی خودمختاری کا احترام، اور مشرق وسطیٰ کو ایٹمی و تباہ کن ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کی اپیل شامل ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان اس تنازعے میں اب تک جو زبانی جمع خرچ ہو رہا تھا، اس قرارداد نے اسے ایک عملی سفارتی رخ دے دیا ہے۔ یہ ایک غیرجانبدارانہ، اصولی اور انسان دوست مؤقف کی نمائندگی ہے۔ مصر کی قیادت میں یہ 21 ممالک صرف مسلم دنیا کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے، بلکہ وہ ایک ایسے وژن کا اظہار کر رہے تھے جس میں جنگ کی نہیں، امن کی جیت ہو۔
اس قرارداد کا عالمی سطح پر خیرمقدم کیا گیا ہے، خصوصاً چین اور دیگر نیوٹرل ریاستوں نے اس اقدام کو مثبت پیشرفت قرار دیا ہے۔ سمیح شکری کی سفارتی چابکدستی نے ثابت کر دیا کہ اگر نیت صاف ہو اور قیادت مضبوط، تو بات چیت، سفارت کاری اور اصولی مؤقف سے وہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں جو بندوق کبھی نہیں لا سکتی۔
دنیا ایک اور تباہ کن جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ قاہرہ سے اٹھنے والی یہ صدا شاید اُس نئے مشرق وسطیٰ کی نوید ہو، جہاں بات امن کی ہو، اور فیصلے قوموں کی اجتماعی دانش سے ہوں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں