دنیا کی تاریخ میں طاقتور عہدے کبھی کبھی کمزور اور غیر سنجیدہ افراد کے ہاتھ آ جاتے ہیں، جن کے فیصلے نہ صرف ان کے ملک بلکہ پوری دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور قیادت اسی افسوسناک مثال کا عملی روپ ہے، جو اپنے متضاد بیانات، غیر مستقل مزاجی اور سیاسی کمزوری کے باعث نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کو ایک سنگین بحران کی جانب دھکیل چکے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑی بڑی باتیں کیں۔ انہوں نے عوام کو یقین دلایا کہ وہ امریکہ کو غیر ضروری جنگوں سے نکالیں گے، مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کریں گے، اور عالمی سیاست میں سفارت کاری کو ترجیح دیں گے۔ مگر اقتدار میں آتے ہی ان کے تمام وعدے دھوئیں میں اُڑ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ، اسرائیل کے وزیرِاعظم بنیامن نیتن یاہو کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبرداری، فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی حمایت، یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا متنازع فیصلہ، اور عرب دنیا میں عدم استحکام — یہ سب نیتن یاہو کی دیرینہ خواہشات تھیں جو ٹرمپ کی کمزور قیادت کے سائے میں عملی جامہ پہن گئیں۔
دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جیسے ہی پندرہ جون کو ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی امید پیدا ہوئی، اسرائیل نے تیرہ جون کو ایران پر حملہ کر دیا۔ ٹرمپ کا سیز فائر کا وعدہ ایک مذاق بن کر رہ گیا اور اگلے ہی دن ٹرمپ خود جنگ میں کود گئے۔ یہ واضح پیغام تھا کہ امریکہ اب آزاد ریاست کم اور اسرائیل کی سیاسی چالوں کا آلۂ کار زیادہ بن چکا ہے۔
یہ حقیقت صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہی۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں روس اور یوکرین کی جنگ بھی شدت اختیار کرتی گئی۔ جہاں توقع تھی کہ امریکہ ایک غیر جانب دار ثالثی کردار ادا کرے گا، وہاں روس نے امریکی مداخلت کا الزام لگا کر اپنے تباہ شدہ جنگی جہازوں کی ذمہ داری امریکہ پر ڈال دی۔ ٹرمپ کی کمزور حکمت عملی کے باعث عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ مزید متاثر ہوئی۔
جنوبی ایشیا کی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھی ٹرمپ کی خارجہ پالیسی نے خطرناک اثرات مرتب کیے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، اور پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہ شک جڑ پکڑتا گیا کہ بھارت کو اسرائیل کی خفیہ مدد حاصل ہے۔ اور اسرائیل، امریکہ کی آشیر باد کے بغیر کسی خطے میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ ماضی میں بھی بھارت اور اسرائیل کی دفاعی شراکت داری رہی ہے، مگر ٹرمپ کے دور میں اس تعاون کو غیر معمولی وسعت ملی، جس نے خطے میں طاقت کا توازن مزید بگاڑ دیا۔
ٹرمپ کی شخصیت میں نہ سیاسی بلوغت ہے، نہ عالمی سطح کی سمجھ بوجھ۔ ان کے فیصلے محض ذاتی مفادات اور وقتی سیاسی فائدے کے گرد گھومتے ہیں۔ نیتن یاہو جیسے چالاک سیاست دانوں نے ٹرمپ کی اسی کمزوری کو خوب استعمال کیا اور امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کا مہرہ بنا کر رکھ دیا۔
فلسطینیوں کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل کی وعدہ خلافیاں ایک بار پھر کھل کر سامنے آئیں۔ انیس سو سینتالیس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ، انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیلی قبضہ، ہر دور میں فلسطینی عوام سے فریب اور دھوکہ، اور اب ٹرمپ کے دور میں ان کے تمام حقوق روند ڈالنے کی کھلی اجازت — یہ سب دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ ٹرمپ کمزور صدر ہیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اتنی سادہ لوح ہے کہ یہ حقیقت نظر انداز کرے کہ امریکہ اب ایک خود مختار سپر پاور نہیں رہا بلکہ اسرائیل کی چالاکیوں کا آلۂ کار بن چکا ہے؟
دنیا میں جب بھی کوئی طاقتور ملک کمزور قیادت کے ہاتھ آتا ہے تو اس کے اثرات صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہتے بلکہ پوری دنیا اس کی قیمت چکاتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ، روس اور یوکرین کی کشیدگی، جنوبی ایشیا میں بڑھتا ہوا تناؤ، اور فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی — یہ سب ٹرمپ کی کمزوریوں اور اسرائیل کی چالاکیوں کا نتیجہ ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں