جمعرات، 19 جون، 2025

شام کی کہانی (1)




شام صرف ایک جغرافیائی ریاست نہیں بلکہ تہذیب، ایمان، قربانی اور طاقت کی کشمکش کی صدیوں پر محیط ایک ایسی داستان ہے جس نے دنیا کی ہر عظیم طاقت کا سامنا کیا۔ پانچویں صدی عیسوی سے لے کر آج کے احمد الشراع کے دور تک، شام مسلسل اندرونی اور بیرونی آزمائشوں سے دوچار رہا ہے۔
بازنطینی عہد — مذہب اور سیاست کا ٹکراؤ
پانچویں صدی عیسوی میں شام، بازنطینی سلطنت کا ایک اہم صوبہ تھا۔ انطاکیہ مذہبی و عسکری مرکز رہا۔ کلیسائی نظام مضبوط تھا، لیکن فرقہ واریت (کیتھولک، مونوفیزائٹس، نیسٹورین) نے سیاسی عدم استحکام کو ہوا دی۔
اسلامی فتوحات اور خلافتِ راشدہ
چھ سو چھتیس ہجری میں جنگ یرموک کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں مسلم افواج نے بازنطینی افواج کو شکست دی اور شام اسلامی خلافت کا حصہ بن گیا۔ دمشق خلافتِ اُمویہ (چھ سو اکسٹھ تا سات سو پچاس) کا دارالحکومت رہا، اور اسلامی تہذیب کا مرکز بن گیا۔
عباسی، فاطمی اور ایوبی ادوار
آٹھویں سے تیرھویں صدی تک، شام عباسی خلافت کے ماتحت رہا، جبکہ کچھ حصے فاطمی خلافت کے قبضے میں بھی آئے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر شام کو اسلامی مزاحمت کی علامت بنا دیا۔
منگولوں کے حملے اور عثمانی خلافت
تیرھویں صدی کے اختتام پر منگول حملوں نے شام کو غیر مستحکم کیا۔ پندرہ سو سولہ میں سلطان سلیم اوّل نے شام کو عثمانی سلطنت میں شامل کر لیا۔ اگلی چار صدیوں تک دمشق حج کے قافلوں کا مرکز اور علم و روحانیت کا گہوارہ رہا۔
فرانسیسی قبضہ (انیس سو بیس تا انیس سو چھیالیس)
پہلی جنگِ عظیم کے بعد، شام فرانس کے زیرِ تسلط آ گیا۔ انیس سو پچیس کی عظیم بغاوت نے فرانسیسی اقتدار کو چیلنج کیا۔ انیس سو چھیالیس میں شام نے آزادی حاصل کی، لیکن داخلی فرقہ واریت اور مغربی اثرات ختم نہ ہو سکے۔
آزادی کے بعد: بغاوتیں، قوم پرستی، اور اسرائیل دشمنی
انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کے قیام کے بعد شام کی ساری سعی اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی کے آگے بند باندھنے ہی صرف رہی اور انیس سو اٹھاون میں شام نے مصراور عراق کے ساتھ متحدہ عرب جمہوریہ بنائی گئی۔ مگرانیس سو سڑسٹھ کی جنگ میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیاں قبضے میں لے لیں۔
حافظ الاسد (انیس سو ستر تا دو ہزار)
جنرل حافظ الاسد نے اقتدار پر قبضہ کر کے علوی اقلیت کی حکومت قائم کی۔ انیس سو بیاسی میں اخوان المسلمون کی بغاوت کو حما شہر میں خونریز آپریشن کے ذریعے کچلا گیا۔ ایران-عراق جنگ میں شام، ایران کا حامی رہا۔
بشار الاسد (دو ہزار تا دو ہزار تئیس)
دو ہزار میں بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا۔ ابتدائی اصلاحات کے بعد وہ بھی سخت گیر حکمران بن گیا۔ دو ہزار گیارہ میں عرب بہار کی لہر شام پہنچی، لیکن احتجاجوں کو طاقت سے دبایا گیا۔ خانہ جنگی شروع ہوئی جس میں لاکھوں افراد جاں بحق اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔ روس، ایران، امریکہ، ترکی، داعش، کرد ملیشیاؤں، اور اسرائیل سمیت کئی طاقتیں شام میں مداخلت کرتی رہیں۔
احمد الشراع کا دور (دو ہزار چوبیس تا حال)
دو ہزار تئیس کے اواخر میں عالمی سفارتی کوششوں اور امریکہ و اسرائیل کی درپردہ حمایت سے بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹایا گیا۔اور دو ہزار چوبیس  میں احمد الشراع کو شام کا نیا صدر بنایا گیا، جنہیں بعض مبصرین "ویسٹ فریینڈلی" اور "اسرائیل ٹالرنٹ" کہتے ہیں۔
ابتدائی طور پر احمد الشراع نے وعدہ کیا کہ وہ شام کو ازسرنو تعمیر کریں گے، معاشی اصلاحات لائیں گے، اور مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنائیں گے، مگر ان کے اقتدار کا آغاز ہی متنازع ثابت ہوا۔
ایران اور حزب اللہ کے ساتھ تعلقات محدود کیے گئے۔
اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی خبریں سامنے آئیں۔
روسی حمایت کم ہوئی، جب کہ مغربی اثرات بڑھنے لگے۔
عوامی سطح پر کئی مظاہرے شروع ہوئے جن میں احمد الشراع کو "امریکی منصوبہ" قرار دیا گیا۔
معاشی بحران، بے روزگاری، اور اندرونی کشمکش اب بھی جاری ہے۔
قوم پرستوں اور ایرانی وفادار گروہوں کی مزاحمت احمد الشراع کی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔
زخموں سے چور شام
شام، جو کبھی علم، حکمت، اور جمال کا گہوارہ تھا، آج ایک سیاسی تجربہ گاہ بن چکا ہے۔
دمشق، جو کبھی صوفیانہ محبت کا استعارہ تھا، آج مفادات کی جنگ میں جل رہا ہے۔
لیکن شاید...
یہی شام، جسے بار بار مٹانے کی کوشش کی گئی، کل پھر اپنی خاک سے اٹھے گا۔
کیونکہ تہذیبیں مٹی میں دفن تو ہو سکتی ہیں، ختم نہیں ہوتیں۔



کوئی تبصرے نہیں: