آیتاللّٰہ سید علی حسینی خامنہای (پیدائش: 17 جولائی 1939، مشہد) ایران کے دوسرے سپریم لیڈر ہیں، جو 1989 سے اس عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے قم، نجف اور مشہد میں دینی تعلیم حاصل کی اور 1960–70 کی دہائی میں شاہی حکومت کے خلاف مزاحمتی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ انقلاب 1979 میں نمایاں کردار ادا کیا، جنگ ایران–عراق (1980–88) میں وزیرِ دفاع اور بعد ازاں صدارتی خدمات سرانجام دیں۔ 1989 میں آیتاللّٰہ خمینی کے وفات کے بعد وہ ایران کی اعلیٰ قیادت پر فائز ہوئے ۔
ایران کا بنیادی آئینی ستون ولایتِ فقیہ خامنہای کے تحت مضبوط ہوا۔ ان کے اقتدار میں فوج، عدلیہ، میڈیا، اور خارجہ پالیسی شامل ہے ۔
انہوں نے
IRGC
(سپاہ پاسداران)
اور بیسج جیسے نیم فوجی اداروں کو ریاستی طاقت کے مرکزی ستون بنایا، جو ان کے اقتدار کا اہم حصہ ہیں ۔
ان کی شخصیت کو امام علی سے تشبیہ دی جاتی ہے اور یہ تصور نسل درنسل پھیلا ہے کہ وہ معصوم ہیں، بیرون ایران اس تصور کو تعجب سے دیکھا جا سکتا ہے مگر ان کے پیرو کار ایسا ہی مانتے ہیں
عالمی سطح پر ایران–امریکہ اور ایران–اسرائیل تعلقات میں خامنہای کا کردار بنیادی ہے۔ انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام، شام، لبنان ، اور یمن میں ایرانی اثرات کو مستحکم کیا ہے ۔
موجودہ جنگ ایران–اسرائیل میں خامنہای نے
“escalate-to-de-escalate”
حکمت عملی اپنائی، محدود جوابی حملوں کی حمایت کی اور امریکہ کے ساتھ براہ راست جنگ سے گریز کا اشارہ دیا
دنیا بھر میں تقریباً 20 کروڑ شیعہ ہیں۔ عراق، لبنان، پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک میں خامنہای کی قیادت کو مذہبی و سیاسی اہمیت دی جاتی ہے ۔ بعض گروہ تو انہیں روحانی باپ اور امام کا درجہ دیتے ہیں ۔
پاکستانی شیعہ تنظیمیں قم اور تہران سے فتاوی اورمبینہ فنڈنگ لے کر انہیں اپنا رہبر تسلیم کرتی ہیں ۔
خامنہای کی شخصیت سیاسی-مذہبی طاقت کی علامت ہے، جہاں ریاست، مذہب اور بین الاقوامی مفادات یکجا ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں