اسرائیل کے دوست
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ
دنیا میں قوموں کے تعلقات صرف معاہدات، مفادات یا وقتی ضروریات پر مبنی نہیں ہوتے، بلکہ بعض رشتے فطری ہوتے ہیں — نظریاتی ہم آہنگی، تاریخی تجربات، تہذیبی مماثلت، اور اسٹریٹجک ضروریات کے باعث بعض ممالک ایک دوسرے کے قدرتی اتحادی بن جاتے ہیں۔ اسرائیل کے معاملے میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اگرچہ اس کی جغرافیائی حدود مشرق وسطیٰ میں واقع ہیں، لیکن اس کے قدرتی اتحادی عموماً مغربی یا غیر عرب دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اسرائیل کے قدرتی اتحادیوں کا مفصل تجزیہ کریں گے۔
امریکہ: اسٹریٹجک رفیق یا روحانی بھائی؟
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا اور دیرینہ اتحادی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی، انٹیلی جنس، اقتصادی اور سائنسی تعلقات نہایت مضبوط ہیں۔ اس تعلق کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
یہودی لابی کا اثر: امریکہ میں یہودی برادری کا اثرورسوخ بہت گہرا ہے۔
AIPAC
جیسی تنظیمیں امریکی پالیسی پر براہ راست اثر ڈالتی ہیں۔
مسیحی صہیونی تحریک: ایک بڑی امریکی عیسائی آبادی عقیدے کی بنیاد پر اسرائیل کی حمایت کرتی ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیل کی طاقت مسیحا کی آمد کے لیے لازمی ہے۔
اسٹریٹجک ضرورت: مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے اسرائیل ایک مستقل عسکری اڈہ ہے، جہاں سے وہ علاقائی طاقتوں ایران، شام، اور حتیٰ کہ ترکی پر بھی نظر رکھتا ہے۔
بھارت: نظریاتی ہم آہنگی اور اسلام دشمنی کا اشتراک
اگرچہ بھارت نے 1992 میں اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے، مگر گزشتہ دو دہائیوں میں یہ تعلقات حیرت انگیز حد تک گہرے ہو چکے ہیں۔
اسلام مخالف بیانیہ: بھارت اور اسرائیل دونوں نے مذہبی اقلیتوں — خصوصاً مسلمانوں — کے خلاف سخت گیر رویہ اپنایا ہے۔ نریندر مودی اور بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں یہ رشتہ مزید مستحکم ہوا۔
دہشت گردی کے خلاف اتحاد: دونوں ممالک خود کو دہشت گردی کا شکار ظاہر کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے انسداد دہشت گردی کی ٹیکنالوجی اور تجربات شیئر کرتے ہیں۔
دفاعی تجارت: اسرائیل، بھارت کو جدید ہتھیار، ڈرون، سائبر ٹیکنالوجی، اور انٹیلیجنس سسٹمز فراہم کرتا ہے۔
یونان اور قبرص: اسرائیل کے یورپی پڑوسی
مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی قرب میں واقع یونان اور قبرص اسرائیل کے قدرتی اتحادیوں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
ترکی مخالف اتحاد: ترکی کے ساتھ ان تینوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں، جس کا فائدہ باہمی اشتراک میں ہو رہا ہے۔
توانائی کے منصوبے: اسرائیل، یونان اور قبرص نے مشرقی بحیرہ روم سے گیس نکالنے اور یورپ تک پہنچانے کے لیے مشترکہ پائپ لائن منصوبے بنائے ہیں۔
بحری تحفظ: یہ ممالک مل کر سمندری تحفظ، انٹیلیجنس شیئرنگ اور نیول مشقیں کرتے ہیں۔
افریقی ممالک: نظریاتی نہیں، لیکن فائدے مند اتحادی
متعدد افریقی ممالک جیسے کینیا، یوگنڈا، ایتھوپیا، اور روانڈا اسرائیل کے ساتھ دفاعی، زرعی اور تکنیکی تعلقات رکھتے ہیں۔ ان میں کچھ بنیادی وجوہات شامل ہیں:
ترقیاتی منصوبے: اسرائیل ان ممالک کو ٹیکنالوجی، زراعت، اور پانی کی صفائی میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں ووٹنگ سپورٹ: یہ ممالک اسرائیل کو عالمی فورمز پر ووٹ کے ذریعے فائدہ دیتے ہیں۔
خلیجی ممالک (نئے اتحادی)
ابراہام معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔
ایران مخالف بیانیہ: ان ممالک کے لیے اسرائیل ایک طاقتور حلیف ہے جو ایران کے خلاف عالمی سطح پر دباؤ بنا سکتا ہے۔
معاشی مفادات: ٹیکنالوجی، سائبر سکیورٹی، اور سیاحت کے شعبوں میں اسرائیل کی مہارت ان ممالک کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
امریکی دباو: امریکہ نے ان ممالک پر سفارتی دباؤ ڈال کر اسرائیل سے تعلقات قائم کرائے۔
اسرائیل کے " اتحادی" صرف وہ ممالک نہیں جو اس سے سفارتی یا عسکری تعلقات رکھتے ہیں، بلکہ وہ ہیں جو
نظریاتی طور پر اسلام دشمنی میں شریک ہیں،
ایران مخالف بیانیے کے حامل ہیں،
امریکہ کی عالمی حکمت عملی کا حصہ ہیں،
یا پھر اسرائیلی ٹیکنالوجی اور عسکری طاقت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
اسرائیل آج ایک ایسا ملک بن چکا ہے جو اپنے فطری اتحادیوں کے ساتھ مل کر نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست بلکہ عالمی جغرافیہ پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں